تیکھی غزلوں کا شاعر-امجداسلام امجد

کرو جو بات کرنی ہے-امجداسلام امجد

کرو جو بات کرنی ہے-امجداسلام امجد

کرو جو بات کرنی ہے

حفیظ جالندھری کا ایک شعر ہے۔

!ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں تو ڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے! کہیں ایسا نہ ہوجائے

گورے حضرات انگریزی میں اس فیصلے اور تذبذب کی کیفیتی کا علاج تین الفاظ یعنی do it now سے کرتے ہیں۔ہماری عمر جس قدر تیزی سے ساتھ گزرتی ہے اس کا احساس ریٹائرمنٹ یا اُس کی عمر تک پہنچنے کے بعد زیادہ ہونے لگتا ہے کہ باقی ہر چیز کی رفتار شائد سست پڑ جاتی ہو لیکن عمر اور وقت کے گزرنے پر اس کا اثر اُلٹ ہوتا ہے زیرِ نظر تحریرمیں اسی واہمے یا انکشاف پر بات کی گئی ہے مجھے ا چھی بھی لگی اور بامعنی اور سبق آموز بھی سو سوچا کیوں نہ آپ کو بھی ا س تجربے میں شامل کرلیا جائے۔

 
یقینا آپ کے علم میں ہوگا کہ وقت کو تیزی سے گزرنے کا ایک انوکھا ڈھب آتا ہے اور یہ کہ اس نے گزرے ہوئے سالوں میں کس طرح کئی بار آپ کو اچانک اس طرح اور اُس طرف سے گرفت میں لیا ہے کہ آپ کو جس کا گمان تک نہیں تھا پلٹ کر دیکھیے تو ایسا لگتا ہے جیسے یہ ابھی کل کی بات تھی ہم جوان تھے اور ایک نئی زندگی شروع کرنے کے بارے میں سوچ بھی رہے تھے لیکن اگر ذرا مختلف انداز میں سوچیں تو یہ برسوں پرانی بات ہے اور یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ درمیان کے بہت سارے برس کب آئے اور کب گئے اگر چہ ایک حقیقت ہے کہ میں نے وہ سب دن بقائمی ہوش و حواس گزارے ہیں اُن کی کچھ اُڑتی اُڑتی جھلکیاں بھی میرے ذہن میں رہ گئی ہیں جس میں میری اُمیدیں اور خواب ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو رہے تھے۔

 
بہرحال اب یہ سب ہوچکا ہے اور یوں ہے کہ اب میں اپنی زندگی کی آخری چوتھائی میں ہوں اور یہ وقت بھی گزرتے ہوئے وقت کی طرح اچانک اور بن بتائے آیا ہے میں اس قدر تیزی اور جلدی سے یہاں کیونکر پہنچا۔ میری جوانی کے درمیان کے برس کہاں گئے، کچھ پتہ نہیں۔

 
مجھے اچھی طرح یاد ہے میں بوڑھے لوگوں کو اپنی عمر کے لیے اور اُن کی عمر کے چوتھے دورانیے میں اس گمان کے ساتھ دیکھا کرتا تھا کہ ان بوڑھوں اور میری عمر کا درمیانی فاصلہ بہت زیادہ ہے اور میں اُس وقت یہ سوچ یا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ عنقریب میں خود اس منظر کا حصہ بن کر اسے دیکھا کروں گا۔

 

اب یہ ایک کھلی اور سامنے کی حقیقت ہے کہ میں اور میرے دوست بڑھاپے کی حدود میں داخل ہوچکے ہیں اور ہمارے بال اپنی قدرتی سیاہی کھو کر اب منگحے اور سفید ہو رہے ہیں اب ہم سب کی رفتار سست ہوچکی ہے اور جب بھی بوڑھوں کو دیکھتا ہوں تو اُن میں کچھ مجھے اپنے سے بہتر لگے لیکن زیادہ تر کی حالت قابلِ رحم تک خراب تھی لیکن اس کے باوجود سب کے سب ایک بہت بڑی تبدیلی کے آئنہ دار تھے اب اُن میں وہ جوانی، جوش حرکت اور دور تک نہیں تھے جو اُن سے متعلق میری یادوں کا حصہ تھے بلکہ اب وہ سب بھی میری طرح بڑھتی ہوئی عمر کا ایک نقشِ عبرت بن چکے تھے بڑھتی ہوئی عمر کی وجہ سے اب ہم سب اُن بوڑھوں کی شکل میں ڈھل رہے تھے جنہیں ہم کسی زمانے میں ترس کی نگاہوں کے سا تھ دیکھا کرتے تھے اور کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک دن ہم خود اُن کی مجسم تصویربن جائیں گے۔

 
اب وہ زمانہ آگیا ہے کہ ہمیں شاور کے نیچے کھڑے ہو کر نہانا ایک معرکے جیسا لگتا ہے اور دن میں نیند کی ایک پر سکون جھپکی لے سکنا اب صرف ایک آحس عمل نہیں رہا بلکہ یہ ہماری مجبوری بن چکی ہے کہ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو پھر کہیں بھی بیٹھے بیٹھے نیند کی آغوش میں چلے جایا کریں گے۔ مطلب یہ کہ اب مجھے زندگی کے ایک نئے تجربے اور موسم سے گزرنا ہوگا اچانک اور غیر متوقع دردوں اور سیٹوں کے مقابلے کی تیاری کے بغیر اور اُس ہمت، طاقت اور صلاحیت کی موزوں فراہمی کے بغیر مجھے اُن مراحل سے گزرنا ہوگا جن سے میں جوانی میں گزرنا چاہتاتھا مگر خواہش اور کوشش کے باوجود نہیں گزر سکا۔ لیکن اب میں یہ یقینا جان چکا ہوں کہ اگرمیں اپنی عمر کی آخری چوتھائی میں ہوں مگر میں اب بھی اس کی اصل طوالت سے بے خبر ہوں۔

 

بلاشبہ مجھے کئی پچھتاوے ہیں کئی باتیں جو مجھے نہیں کرنا چاہییں تھیں میں نے کیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ مجھے کئی ایسی باتوں کی خوشی بھی ہے جنہیں کرنے کا مجھے وقت اور حوصلہ مل گیا کہ اسی کا نام زندگی ہے۔


سو دوستانِ عزیز اگر تم اس وقت اپنی عمر کی آخری چوتھائی میں نہیں ہو تو میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ یہ تمہارے اندازے سے بہت پہلے آجائے گا لہٰذا جو کچھ تم اپنی زندگی میں کرنا چاہتے ہو جلدی بلکہ ابھی کرلو ان کے لیے لمبی منصوبہ بندی نہ کرو کیونکہ زندگی کی رفتار تمہارے اندازے سے بہت تیز ہے تمہارے پاس اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ تم زندگی کے سارے موسم پوری طرح سے دیکھ سکو گے۔ سو آج میں زندہ رہنا سیکھو جو کرنا ہے جلدی سے کرلوسب وہ کام کرلو جو تم اپنے پیاروں کی یادوں میں زندہ رہنے کے لیے بطور تحفٖہ چھوڑنا چاہتے ہو، یا درکھو زندگی کا اصل خزانہ زر، جوہر نہیں بلکہ اچھی صحت ہے۔

 

تم سوچتے تھے کہ دنیا میں گھومنا بہت احسن ہے مگریاد رکھو گھر واپس آنے سے زیادہ کوئی بھی خوشگوار سفر نہیں۔تمہیں یہ سوچ کر افسوس ہوتاہے کہ تمہاری یادداشت جواب دے رہی ہے اور اب تمہیں لوگوں کے نام یاد نہیں رہتے۔ اس کا غم مت کرو کیونکہ ان فراموش کردہ ناموں میں بہت سے نام ایسے بھی ہیں جو سرے سے تمہیں جانتے ہی نہیں۔ بہت سی چیزیں جن سے تمہیں بہت اُنس تھا اب تمہیں اُن کی پہلے جیسی پروا اور فکر نہیں رہی لیکن عملی طور پر تمہیں اسے جاننے یا نہ جاننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اب تم چلے ٹی وی کے سامنے لاؤنج میں صوفے پر بیٹھے بیٹھے سوجاتے ہو اور اسے نیند کا حصہ قرار دیتے ہو۔تمہیں اب وہ دن یاد کرتے ہیں جب ہر چیز تمہاری مرضی کے مطابق خود بخود ہوجاتی تھی۔ تمہاری الماریوں میں آدھے سے زیادہ کپڑے ایسے ہیں جنہیں شائد اب تم کبھی نہیں پہنو گے۔ پرانی چیزیں، گانے، دوست، فلمیں، یادیں سب موجودہ سے اچھی لگتی ہیں لیکن فرض کر و اگر یہ موجودہ عمر کی آخری چوتھائی تمہارے نصیب میں لکھی ہی نہ گئی ہوتی، تب؟

کرو جو بات کرنی ہے
اگر اُس آس پر بیٹھے کہہ دینا
بس تمہیں سننے کی خاطر گوش بر آواز ہوکر بیٹھ جائے گی
تو ایسا ہو نہیں سکتا
زمانہ ایک لوگوں سے بھرا فٹ پاتھ ہے جس پر
کسی کی ایک لمحے کے لئے رکنا نہیں ہوتا
بٹھاؤ لاکھ تم پہرے
تماشا گاہِ عالم سے گزرتی جائے گی خلقت
بِنا دیکھے بِنا ٹھہرے
کرو جو بات کرنی ہے
کرو جو بات کرنی ہے۔

تیکھی غزلوں کا شاعر-امجداسلام امجد

گوشہ محمد خالد اختر-امجداسلام امجد

گوشہ محمد خالد اختر-امجداسلام امجد

گوشہ محمد خالد اختر

کتابی سلسلہ”کراچی ریویو“ کا شمارہ نمبر5اور 6اس وقت میرے سامنے ہے جس کی پیشانی پر جلی الفاظ میں ”خصوصی گوشہ محمد خالد اختر“ درج کیا گیا ہے مگر لطف کی بات یہ ہے کہ عملی طور پر یہ پورا شمارہ ”محمد خالد اختر“ کے بارے میں ہے البتہ آخرمیں اور کہیں کہیں کچھ گوشے دیگر تحریروں کو بھی دیئے گئے ہیں اور یوں یہ عمل محمدخالد اختر مرحوم کی اُس زیر لب تمسخر آمیز مسکراہٹ سے ملتا جلتا ہے جو ان کی تحریر اور شخصیت دونوں کا تعارف بن گئی تھی خالد صاحب سے بالمشافہ تعارف تو ستّر کی دہائی میں ”فنون“ کے دفتر میں ہوا جہاں وہ ہمیشہ سیّدمحمد کاظم کی رفاقت میں پائے گئے لیکن اُن کی تحریروں سے تھوڑی بہت واقفیت ایم اے اُردو کے زمانہ سے چلی آرہی تھی وہ طبعاً بھی کم آمیز تھے اور ہمار اگروپ بھی عمر کے اعتبار سے ان سے بہت جونیر تھا چنانچہ خاصے عرصے تک یہ ملاقاتیں سلام دعا سے آگے نہ بڑھ سکیں انہی دنوں میں شفیق الرحمن صاحب سے رابطہ ہوا جو میرے پسندیدہ ترین ادیبوں میں سے تھے اور اُن کی تعریف اور گفتگو ہی ایک پُل کی طرح ہمیں محمد خالد اختر کے قریب لے آئی اور پھر اُن کی تحریر اور شخصیت کا نشہ کچھ ایسا چڑھا کہ وہ بیک وقت ہمارے محبوب ترین ادیبوں اور انتہائی مشفق سینئر دوستوں کے مختصر گروہ کا حصہ بن گئے وہ اپنی تحریروں، تراجم، اور مسودّوں وغیرہ کو محفوظ رکھنے کے سلسلے میں خاصے بے پرواہ تھے یہ کمال اُن کے احباب شفیق الرحمن، احمد ندیم قاسمی، سیّد محمد کاظم، علی عباس جلال پوری، رشید احمد خان، اکرام اللہ، ظہور نظر، راؤ ریاض، محمد سلیم الرحمن اور آگے چل کر کراچی کے دوستوں اجمل کمال، مشرف ذوقی اور سیّد کاشف رضا کا ہے کہ وہ اس ضمن میں اُن کا ہاتھ بٹاتے اور خبر گیری کرتے رہے اور یوں اُردو دنیا اس جہت اور انوکھے مختلف اور صاحبِ طرز ادیب کی تحریروں سے اسیر اور فیض یاب ہوسکی۔

اُن کی زندگی کے آخری چند سال کراچی میں گزرے وہ بزرگوں کی اُس نسل سے تھے جو۔۔۔۔کا فوری اور مفصل جواب لکھنا اپنی اخلاقی ذمہ داری سمجھتے تھے میرے پاس ان کے بہت سے خطوط ہیں جن میں سے زیادہ تر بہاول پور سے لکھے گئے ہیں ان کے خط لکھنے کا بھی اپنا ہی انداز تھا اور وہ اس ضمن میں کسی باقاعدہ کاغذ یا لیٹر ہیڈ وغیرہ کا بھی اہتمام نہیں کرتے تھے اکثر وہ کسی کاپی یا ڈائری کے صفحات پر لکھے گئے ہیں جن میں سے کچھ میں نے اپنے نام آنے والے خطوط کے مجموعے ”قاصد کے آتے آتے“ میں شامل بھی کیئے ہیں۔

اتفاق سے گزشتہ کچھ عرصے سے ان کے بینکر اور انگریزی میں لکھنے والے بڑے بیٹے ہارون اختر سے میرا رابطہ ہو ہے جنہیں میں نے آخری بار غالباً کوئی چالیس برس قبل شادمان اہور والے گھرمیں دیکھا تھا ان کی طبیعت اور شخصیت کی کیمسٹری میں تنہائی پسندی،علاحدگی، ایڈونچر، خاموشی اور اپنی ذات میں مست رہنے کے عناصر نے انہیں زندگی بھر خواہش کے باوجود ایک مجلسی انسان کی طرح زندگی گزارنے کا موقع نہیں دیا سو ہم نے دیکھا کہ لڑکپن اور جوانی میں وہ اپنے والد کے تیار کردہ دائرے سے نکلنے کی کوشش میں مصروف رہے اور آگے چل کر اپنی خانگی اور ازدواجی زندگی میں بھی اسی طرح کی کشمکش اُن کے ساتھ ساتھ رہی اسی شمارے کی اکثر تحریر وں میں آپ دیکھیں گے کہ ان سے ملنے والے ان کی تنہائی اور کتابوں سے غیر معمولی محبت کا ذکر کرتے نظر آتے ہیں انہوں نے جو بھی کچھ لکھا اُسے اعلیٰ ادب کے قارئین نے بہت شوق دلچسپی عزت اور رغبت سے پڑھا مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ غریب اور عام آدمی کی زندگی کی مشکلات کا کثرت سے ذکر کرنے کے باوجود عوامی انداز کے رائٹر نہیں بنے میرے نزدیک جس طرح کچھ شاعر، شاعروں کے شاعر ہوتے ہیں اسی طرح محمد خالد اختر کو بھی ا دیبوں کا ادیب کہنا چاہیے فیض صاحب اُن کے ناول ”چاکی واڑہ میں وصال“پر فلم بنانا چاہتے تھے جو نہ بن سکی خود میں نے بھی ستّر کی دہائی میں ان کے کردار، چچا عبدالباقی پر لکھی گئی کئی کہانیوں کی ڈرامائی تشکیل کی مگر اسے بوجوہ وہ عوامی پذیرائی نہ مل سکی اب اتنا عرصہ گزرنے کے بعد میں اس کی وجوہات پر غورکرتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ میری ناتجربہ کاری کے ساتھ ساتھ ان کرداروں کی نوعیت ایسی تھی جن میں کیمرے سے زیادہ مائیکروفون یا اندازِ نارش کی وہ خوبیاں زیادہ حاوی تھیں جن کا تعلق دیکھنے سے زیادہ سننے اور پڑھنے سے تھا اسی طرح ان کا کسی تحریر کی پیروڈی کرنا۔۔۔۔کا انداز بھی بالکل مختلف اور اپنا ہے اُن کی کتاب 2011ء جو مشہور انگریزی کتاب کے اندا ز میں لکھی گئی سائنس فکشن، طنزیے اور پیروڈی کا ایک مجموعہ کہی جاسکتی ہے لیکن غور کیا جائے تواس میں بھی علامتی سطح پر علم آدمی کے طاقت ور اور ظالم حکمرانوں کے جبر اور اُن اقدار کی بات کہی گئی جن کا زوال اُسے ایک دفعہ پھر جاندار سے جانور کی سطح پر واپس لے جاسکتا ہے۔

محمد خالد اختر کے سفر نامے ا ور تراجم ایک ایسی نثر کے نمونے ہیں جس کا پہلا بنیادی ڈھانچہ انگریزی زبان اور اس کے محاورے سے بے حد متاثر ہے اور اس اعتبار سے یہ اُردو ادب میں ایک دلچسپ اضافہ بھی ہے کراچی ریویو سے اس نمبرمیں اُن کے بارے میں بہت سی تحریریں جمع کی گئی ہیں جو سب کی سب اپنی جگہ پر اہمیت کی حامل ہیں مگر مجھے سب سے زیادہ متاثر خالد بھائی کے ایک ہم عصر دوست اکرام اور (جن سے مجھے بھی باہمی محبت کا افتخار حاصل ہے) اور اس شمارے کے مرتب سیّد کاشف رضا کے مضامین نے کیا ہے کہ دونوں تحریریں محمد خالد اختر کی شخصیت اور ادبی مقام کو بہت خوش اسلوبی سے نہ صرف متعارف کراتی ہیں بلکہ قاری کے دل میں ان تحریروں کو خود سے پڑھنے کے شوق کو بھی مہمیز دیتی ہیں۔ ان کی بیٹی سارہ کی مختصر تحریر اس محمد خالد اختر کو سامنے لاتی ہے جسے وہ خود زندگی بھر اپنی خاموشی کے دامن میں چھپانے کی کوشش کرتے رہے اپنے رفتگاں کی خوب صورت یادوں کو ایک سنجیدہ اور باوقار اندازمیں محفوظ کرنا اور انہیں بعد کی نسلوں سے متعارف کرانا ایک ا یسا ضروری اور قیمتی نام ہے جس سے پوری دنیا فیض اٹھاتی ہے مگرہمیں بوجوہ بہت کم اس کی توفیق ہوتی ہے اس کتاب میں محمد خالد اختر کی زندگی، شخصیت، مزاج،ا دبی مرتبے اور انداز ِ تحریر کو جس خوش اسلوبی اور توازن سے ایک جگہ پر جمع کردیا گیا ہے وہ بلا شبہ ایک قابلِ تحسین کام ہے اور یقینا محمد خالد اختر کی روح کو بھی کسی نہ کسی شکل میں اس کی پیدا کردہ تحسین خوش اور سرشار کرے گی۔

تیکھی غزلوں کا شاعر-امجداسلام امجد

بُشریٰ رحمن، رُوحی کنجاہی اور ممتاز شیخ

بُشریٰ رحمن، رُوحی کنجاہی اور ممتاز شیخ

بُشریٰ رحمن، رُوحی کنجاہی اور ممتاز شیخ

میرے نزدیک اِن تینوں ادب اور ادب دوست احباب کی خدمات اور شخصیات کے بارے میں کم از کم ایک ایک مکمل کالم ہونا چاہیئے تھا کہ انہوں نے اپنے اپنے انداز میں معاصر ادب پر گہرے اور مثبت اثرات چھوڑے ہیں اور تینوں کی یادوں کے ساتھ دوستی کا ایک خاصا طویل زمانہ بھی وابستہ ہے۔

بشریٰ رحمن کی شخصیت کئی حوالوں سے جانی اور پہچانی جاتی ہے اور یوں اُن کے مدّاحین کا دائرہ بھی بہت بڑا تھا اور ہے۔ بہاولپور کے ایک مذہبی اور روائت پسند خاندان اور وہاں کے مخصوص ماحول میں خواتین کے لئے اضافی پابندیوں کے درمیان انہوں نے 77 برس پہلے آنکھ کھولی اور اگرچہ انہوں نے اپنے روشن خیال والد کی مدد اور اجازت سے صحافت میں ایم اے کی ڈگری بھی لے لی مگر عملی طور پر اس تعلیم کا استعمال یا خواتین کے لئے کہیں ملازمت کرنا (بجزچند ایم بی بی ایس پاس لیڈی ڈاکٹرز کے) ایک امرِ محال سمجھا جاتا تھا بشریٰ رحمن نے شادی سے قبل کوئی 200 کے قریب افسانے بشریٰ رشید کے نام سے لکھے اور چھپوائے تھے مگر شادی کے بعد اپنے شوہر عبدالرحمن میاں جو زمانہ دیدہ اور محبت والے انسان تھے اور مالی آسودگی کے ساتھ ساتھ ایک غیرمعمولی حِس مزاح کے بھی مالک تھے ان کی مدد، رہنمائی اور شہ پر بشریٰ نے اپنے اندر موجود تخلیقی خاتون کے مختلف جوہر دکھا نا شروع کیا اور چند ہی برسوں میں ایک اہم ناول اور افسانہ نگار، پبلشر، گفتگو کے فن کی ماہر، صوفیانہ روایات کی پاسدار اور سیاستدان کے درجوں پر فائز ہوگئیں، پنجاب اسمبلی میں ان کی تقریروں، صوفیانہ حوالوں اورفی البدیہہ اشعار کو ایک مخصوص اور دلچسپ انداز میں پڑھنے پر ”بُلبلِ پنجاب“ کا خطاب بھی دیا گیا۔

وہ بے حد مہمان نواز تھیں او ر ادب سے تعلق رکھنے والے تقریباً تمام نمائندہ اور نامور غیر ملکی لکھاریوں کو وہ بہت محبت اور عزت سے اپنے گھر کھانے پر بلاتیں اور شہر کے معتبر اور ہر مزاج کے نمائندہ لکھاریوں کو بھی اس محفل میں مدعو کرتیں اور یوں اُن کا گھراَدبی تقریبات کی وجہ سے بھی ہمیشہ اچھی خبروں میں رہتا تھا مجھے بھی کئی بار اُن کا مہمان بننے کا موقع ملا وہ بے حد خوش گفتار خوتون تھیں اور اُن کے بولنے کا انداز بھی بڑا دلچسپ اور جداگانہ تھا کہ گفتگو کے دوران وقفوں کا استعمال اور لہجے کا اُتار چڑھاؤ ہر اعتبار سے بہت منفرد اور دلچسپ تھا ناول نگاری میں وہ اے آرخاتون اور رضیہ بٹ والے گروہ سے متعلق تھیں طرزِ تحریر بہت عمدہ اور رواں دواں بیانیئے کی وجہ سے الگ سے پہچانا جاتا تھا وہ خوامخواہ کے فلسفیانہ گتھیوں سے پرہیز کے ساتھ لسّانی تجربات اور مغرب کے زیرِ اثر پھلنے پھولنے والے ہیئتی انداز سے الگ رہتے ہوئے معاشرے اور بالخصوص خواتین کے مسائل پر زیادہ توجہ دیتی تھیں پارٹ ٹائم شاعری بھی کرتی تھیں مگر عام طور پر اسے اپنے قریبی حلقے تک ہی محدود رکھتی تھی۔ ابتدائی زندگی کے مذہبی اور صوفیانہ رجحانات کو قدرے جدید انداز میں پیش کرنا بھی اُنہیں خوب آتا تھا لکھتی ہیں

مرے پاؤں میں پائل ہے
دل نہ دُکھا ماہیا
دل پہلے ہی گھائل ہے

اُن کے کئی ناولوں پر ٹی وی سیریل بھی بنے اور حکومت کی طرف سے انہیں 2007ٗ میں ستارہ امتیاز بھی ملا۔


رُوحی کنجاہی ایک صاحبِ اسلوب شاعر اور بہت اچھے دوست اور انسان تھے تھوڑا اُونچا سنتے تھے ایک دفعہ مرحوم خالد احمد نے جملہ کسا کہ رُوحی ویسے تو تمہیں کچھ سنائی نہیں دیتا مگر مطلب کی بات فوراً تمہاری سمجھ میں آجاتی ہے رُوحی نے مسکرا کر کہا وہ تو میں بولے جانے سے پہلے سُن لیتاہوں یہ اور بات ہے کہ تم نے کبھی اس بات کا موقع نہیں دیا ”رُوحی زیادہ تر سہل ممتنع میں کہتے تھے اور اُن کی غزل کے بیشتر مصرعے عام بول چال اور مکالمے کے انداز میں سننے میں بھلے اور سوچنے میں گہرے لگتے تھے اور اُن کا یہ مصرعہ تو ایسا مقبول ہوا کہ نہ صرف اس پر بہت سے کالم لکھے گئے بلکہ اسے ڈراموں میں بھی استعمال کیا گیا۔ مصرعہ کچھ یوں ہے کہ

”حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی“

آپ اُردو کا کوئی بھی زبردست، مقبول اور باکمال شعر ذہن میں لایئے اور اُس کے بعد اُس کے ساتھ یہ مصرعہ جوڑ دیجئے وہ ایک دم Upside down ہوجائے گا مثلاً

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
”حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی“

لیکن آج اُس کے جنازے میں شرکت کے بعد پھر اندازہ ہو رہا ہے کہ کبھی کبھی یہ فرق پُر بھی ہوجاتا ہے۔


ممتازشیخ چند برس قبل ایک ضخیم اور شاندار ادبی پرچے”لوح“ کے حوالے سے ایک دھماکے کے ساتھ ادبی دنیا میں وارد ہوا کہ گمنام تو وہ اس سے پہلے بھی نہیں تھا کہ گورنمنٹ کالج کا سابق طالب علم ہونے کے حوالے سے ”راوین“ کمیونٹی کے لئے اُس نے بہت عمدہ اور لگ کر کام کیا تھا ایک عام سے ادب دوست انسان کے حوالے سے جانا جانے والا شخص اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے ادبی دنیا میں ایک ایسا نمایا ں مقام حاصل کرلے گا کہ اب اُس کے جاری کردہ جریدے”لوح“ کو کم وبیش تمام معاصرادبی زبانوں پر ایک فوقیت حاصل ہوگئی تھی کتاب سے مبینہ دُوری کے اس زوال آمادہ دور میں یہ رسالہ روشنی کے ایک جھماکے کی طرح سامنے آیا اور پھر ہم نے دیکھا کہ ممتاز شیخ اس حوالے سے ادبی دنیا کا ایک معتبر اور پسندیدہ نام بن گیا برادرم محبوب ظفر نے بتایا کہ کووڈ کے دنوں میں اس کا خاصا وسیع کاروبار اس قدر متاثر ہوا کہ ا س کو اپنی فیکٹریاں بند اور مکان تک بیچنا پڑا مگر اس نے ادبی برادری کو اس بات کی ہوا تک نہیں لگنے دی اور ”لوح“ مسلسل چھپتا رہا مجھے یقین ہے کہ راوینز کے ساتھ ساتھ ”لوح“ کے پرستا ر بھی اُسے ہمیشہ یاد رکھیں گے۔

تیکھی غزلوں کا شاعر-امجداسلام امجد

اخّوت کی جہانگیری-امجداسلام امجد

اخّوت کی جہانگیری-امجداسلام امجد

اخّوت کی جہانگیری

بدقسمتی سے سیاستدانوں کی بحثوں کا موضوع بننے کے بعد سے ریاستِ مدینہ اور اس کی برکات، روایات کا ذکر بھی ایک ایسی غیر سنجیدگی کی فضا کا شکار ہوگیا ہے کہ اب مواخاتِ مدینہ پر بھی بات کرنے سے پہلے سوچنا پڑتا ہے کہ کہیں اس سے بھی ہمارے البیلے سیاستدان اور اُن کے سوشل میڈیا مینجر اس کی تشریح کے لیے بھی کسی کمیشن کا مطالبہ نہ کردیں واضح رہے کہ یہاں کمیشن سے مراد وہ نہیں جس کی طرف ذہن فوراً مبذول ہوجاتا ہے۔ ہُوا یوں کہ پرسوں رات اخّوت کے ایک ٹیلی تھان کے دوران ڈاکٹر امجدؔ ثاقب ہی کا لکھا ہوا اخّوت کا ترانہ ٹیلی کاسٹ کیا گیا جس کے ابتدائی بول ہیں ”ہم مواخات ہیں۔ ہم مواخات ہیں“ کسی سوال کرنے والے کے جواب میں ڈاکٹر امجدنے بتایا کہ دوسرے مذاہب اور تہذیبوں سے تعلق رکھنے والے تو رہے ایک طرف خود وطن عزیز کے بھی بے شمار سننے والوں کی ”مواخات“ کے معانی اور اس کی تاریخ سے آشنائی نہ ہونے کے برابر ہے اور بالخصوص انگلش میڈیم میں تعلیم حاصل کرنے والی نسل کو یہ سمجھانا بھی ایک مہم کی شکل اختیارکرجاتاہے کہ باہمی محبت، قربانی اور بھائی چارے کا آج سے چودہ برس قبل رسول پاکؐ اور اُن کے صحابہ کی مکہ سے مدینہ ہجرت کے وقت چشمِ فلک نے یہ منظر بھی دیکھا تھا کہ مدینے کے انصار نے اپنے ان مہاجر بھائیوں کی صرف خاطرِ خدمت اور مہمانداری نہیں کی تھی بلکہ انہیں اپنے مال اور جائیداد میں بھی نصف کا حصہ دار بنا دیا تھا سو ترانے میں ”ہم مواخات ہیں“ سے مراد مواخات کے عمل میں اپنی شمولیت کا وہی اظہار تھا جس نے خون کے رشتے کے بغیر لوگوں کو سگے بھائیوں کی طرح ایک دوجے کے دکھ سکھ کا ساتھی اور حصے دار بنا دیا تھا۔

گزشتہ بیس برس میں ”اخوّت“ نامی تحریک اور تنظیم قرضِ حسن کے ایک ہزاروں پر مبنی رفاہی پروگرام سے آج ایک سو باسٹھ ارب کی ہو شربا رقم تک پھیلی چکی ہے یہ فی زمانہ عظیم ترین عالمی ریکارڈز میں سے ایک ہے کہ گزشتہ تقریباً تین چار سو برس دنیا جس معاشی نظام پر کاربند ہے اس کا مرکزی ستون ”سُود“ ہے بالخصوص بینکنگ کا تو سارا نظام ہی اس کے گرد گھومتا ہے ایسے میں بلاسود قرضوں کا ایک وسیع اور کامیاب نظام بلاشبہ کسی دیوانے کے خواب سے مختلف نہیں تھا مگر تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ ا س کے ہر موڑ کے پیچھے بھی کہیں نہ کہیں کوئی دیوانہ یا چند دیوانے ہی موجود ہوتے ہیں۔ مجھے یاد ہے ”اخوّت کے بالکل ابتدائی زمانے میں ڈاکٹر امجد ثاقب اپنے ر وحانی استاد شعیب سلطان صاحب کے ساتھ مجھے اور منو بھائی مرحوم کو لے کر ایک گاؤں میں گئے تھے جہاں انتہائی غریب اور بے وسیلہ لوگوں کو دس سے بیس ہزار کے قرضِ حسن جاری کیے جانے تھے۔ تقریب تقسیم قرضہ جات کے لیے گاؤں کی مسجد دفتر ٹھہری جس کے ننگے فرش پر بیٹھ کر یہ کاروائی مکمل کی گئی جس میں نہ تو قرض لینے و الے کا کوئی ضامن تھا اور نہ ہی اس سے کسی اشٹام یا رسید وغیرہ پر دستخط کروائے گئے۔ عام طور پر یہ خواتین یا تو بیوہ یا مطلّقہ تھیں یا اُن کے شوہرکسی بھی وجہ سے گھر کا خرچہ چلانے کے اہل نہیں تھے اور اُس سے بھی زیادہ خوش اور حیران کرنے والی بات یہ تھی کہ ان غریب ترین لوگوں کے قرضہ اور وہ بھی وقت مقررہ پر ادا کرنے کی اوسط 99% سے زیادہ تھی اور اب جبکہ یہ ادارہ قرض حسن کے ساتھ ساتھ تعلیم، ہاؤسنگ، ٹرانس جینڈر اور کفالتِ ِ یتامیٰ کے حوالے سے بھی ایسی خدمات سرانجام دے رہا ہے جس کی وجہ سے لوگ ایدھی صاحب کی طرح ”اخوّت“ پر بھی آنکھیں بند کرکے اعتبار کر لیتے ہیں کم و بیش اس کے ابتدائی زمانے سے اس کے ساتھ ہونے کی وجہ سے میں نے اس محبت یگانگت اور اعتماد کے سفر کو قدم بہ قدم اور لحظہ بہ لحظہ دیکھا ہے اور میں نے اس کے تنظیمی ڈھانچے کی خلوص اور شفافیت کے ساتھ ساتھ اس کو ایک جدید اور منظم ادارے کے طور پر بنتے اور پھلتے پھولتے دیکھا ہے اس لیے مجھے جہاں اور جب بھی گواہی کے لیے بلایا جاتاہے میں حاضر ہوجاتاہوں۔ اخوّت کے لفظ میں جس طرح بھائی چارے کی تمام خوب صورتیوں کو یکجا کردیا گیا ہے اسی طرح اس کا ہر نیا منصوبہ بھی ایک نئی مگر خوشگوار حیرت کے ساتھ طلوع ہوتا ہے ان دنوں وطنِ عزیز میں نظریات کے نام پر جس ضد بازی اور مکالمے کے نام پر خود کلامی کو فروغ دیا جارہا ہے اُس کی نسبت سے میں نے پرسوں والے پروگرام میں ایک نظم سنائی تھی سو وہی بغیر کسی تمہید اور وضاحت کے اس اعتماد کے ساتھ درج کرتا ہوں کہ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔

اے مرے دوستو، بھلے لوگو
اے مرے دوستو بھلے لوگو
عیب سے پاک تو ہے بس اک وہ
جو ہے ہم سب کا پالنے والا
ہر اندھیرا اُجالنے والا

کس لیے پھر یہ خبط عظمت کا
کس لیے دوسروں کے عیبوں کی
گنتیا ں ہی سدا گنے جانا
کس لیے نیند میں چلے جانا
اے مرے دوستو بھلے لوگو
آؤ بیٹھو مکالمہ کرکے
ایک دوجے کی خوبیاں جانیں
جو کمی ہو کسی میں وہ مانیں
جس رعائت کے آپ طالب ہوں
دوسروں کو بھی وہ عطا کردیں
جس معافی کو اپنا حق سمجھیں
دائرہ اس کا کچھ بڑا کردیں

مل کے جینا جو سیکھ لیں ہم تم
کوئی اُلجھاؤ راہ میں نہ رہے
کوئی بے گانگی کا سایا تک
دل میں اور دل کی چاہ میں نہ رہے
اے مرے دوستو بھلے لوگو
اے مرے دوستو بھلے لوگو

تیکھی غزلوں کا شاعر-امجداسلام امجد

لتا جی-امجداسلام امجد

لتا جی-امجداسلام امجد

لتا جی

میں اسلام آباد ایوانِ صدر میں ہونے والے یومِ یک جہتی کشمیر مشاعرے میں شرکت کے بعد لاہور واپسی کی تیاری کر رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی اور بول ٹی وی چینل سے کسی صاحب نے بتایا کہ لتا منگیشکر کا انتقال ہوگیا ہے اور وہ اس سلسلے میں میرا بیپرپر کمنٹ لینا چاہ رہے ہیں میں نے عرض کی فوری طور پریہ ممکن نہیں ہوگا کیونکہ اس رخصت ہونے والی ہستی کے ساتھ میری سماعت کی کم و بیش چھ دہائیاں وابستہ تھیں جواب یتیم اور بے چہرا ہوگئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ذہن میں لتا جی کی یادیں اور اُن کے بے شمار گیت گونجنے لگے کچھ دیر بعد فیس بُک پر اُن کی تصویروں، نغمات اور تعزیتی پیغامات کا قبضہ ہوگیا کسی صاحب نے گلزار بھائی کی لتا جی کے اعترافِ فن کے حوالے سے ایک ویڈیو پوسٹ کی جو ایک بڑے انسان کی طرف سے ایک دوسرے بڑے انسان کی پذیرائی کا ایک بے مثال نمونہ تھی میں نے سوچا کہ لتا جی کے حقیقی پسماندگان کی طرح گلزار بھائی بھی اُن کی تعزیت کے حق دار ہیں کہ وہ اُن کو اپنی بڑی بہن تو کہتے ہی تھے مگر ان کے لکھے ہوئے گیتوں کو بھی سب سے زیادہ سلیقے سے لتا جی نے ہی گایا ہے کل اُن سے فون پر بات ہوئی تو میں نے کہا کہ آج کل آپ کا لکھا اور لتا جی کا گایا ہوا نغمہ ”نام گُم جائے گا“ بہت دہرایا جارہا ہے مگر خود لتا جی کا نام اس بات کا ثبوت ہے کہ بعض ناموں پر یہ بیان فِٹ نہیں بیٹھتا کہ اُن کی آواز صرف اُن کی پہچان ہی نہیں تھی بلکہ اس کی گونج صدیوں تک اُن کے نام اور یاد کو زندہ رکھے گی۔

لتا جی سے مختلف اوقات میں فون پر تین چار مرتبہ گفتگو ہوئی لیکن یہ سرِ راہ ہونے والی واحد ملاقات کے جو تیس برس قبل لندن کی آکسفورڈ سٹریٹ میں ہوئی پہلے کی بات ہے میں اور میری بیوی فردوس برادرِ عزیز مکرم جاوید سے ملاقات کے بعد اُس کے دفتر سے اُتر کر سڑک پر آئے ہی تھے کہ ایک دَم لتا اور آشا جی دو نو عمر لڑکیوں کے ساتھ سامنے آگئیں جو شائد وہاں سڑک پار کرنے کے لئے کھڑی ہوئی تھیں ہم نے سلام دعا کے بعد بتایا کہ ہم پاکستان سے ہیں تو اُن کی رسمی مسکراہٹ ایک دم اپنائیت سے بھر گئی انہوں نے اپنے نمستے کے انداز میں جڑے ہوئے ہاتھ ایک دم کھولے اور ہم دونوں سے بڑی محبت سے ہاتھ ملایا اس سے پہلے کہ ہم کچھ اور کہتے اُن کی ساتھی ایک بچی نے کہا ”آنٹی چلیں سگنل گرین ہوگیا ہے“ انہوں نے جلدی سے ہمیں خدا حافظ کہا اور پیدل چلنے والوں کی کراسنگ کی طرف مڑگئیں ابھی ہم اس اچانک اور پُرلطف تجربے کے خوشگوار تحیّر میں تھے کہ اس میں مزید اضافہ ہوگیا اور وہ یہ کہ سڑک پار کرنے کے بعد نہ صرف انہوں نے مُڑ کرہمیں دیکھا بلکہ مسکرا کر ”بائے“ کہنے کے انداز میں ہاتھ بھی بلند کیا۔

اس واقعے کے کئی برس بعد مرحوم نصرت فتح علی خان کیساتھ میں ایک آڈیو البم کے لئے گیت لکھ رہا تھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ لتا جی کی فرمائش پر اُ ن کیلئے کچھ گیت کمپوزکررہے ہیں اس کام کے لئے انہوں نے میرے تین گیت منتخب کئے ہیں جن میں ایک کی ڈُھن وہ فون پر لتا جی کو سُنا بھی چکے ہیں جو انہیں بہت پسند آئی ہے اور یہ کہ بھارت کے اگلے وزٹ پر ان کی ریکارڈنگ ہوگی چند دن بعد انہوں نے ساؤنڈ ٹریک کی تیاری کے بعد اُن سے فون پر میری بات بھی کرائی بہت محبت سے ملیں اور بتایا کہ نہ صرف میرے ٹی وی ڈرامے بہت شوق سے دیکھتی ہیں بلکہ اُن کو میرا لکھا اور دیدی یعنی ملکہ ترنم نور جہاں کا گایا ہوا گیت ”میں ترے سنگ کیسے چلوں ساجنا“ بھی بہت پسندہے اور وعدہ لیا کہ میں بھی خان صاحب کے ساتھ بھارت آؤں گا۔ بدقسمتی سے یہ سب کچھ اُس وقت ٹھپ ہوگیا جب نصرت فتح اچانک اس دنیا سے پردہ کرگئے بعد میں جگجیت سنگھ کی معرفت اُن سے دو تین بار بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ اُس ٹریک پر ایک ڈمی ریکارڈنگ کراچکی ہیں جسے عنقریب اُن کا منہ بولا بیٹا ریکارڈ اور لانچ کرے گا پھر پتہ چلا کہ اُن کی علالت کی وجہ سے کچھ تاخیر ہوگئی ہے مگر اب کسی بھی وقت یہ کام ہوجائے گا لیکن معلوم نہیں تقدیر کو کیا منظور تھا کہ انہی دنوں ممبئی میں تاریخی طوفانی بارشیں ہوئیں اور پانی ایک عمارت کے اُس تہہ خانے میں بھی بھر گیا جہاں وہ سٹوڈیو قائم تھا جس سے نہ صرف وہ ٹریک ضائع ہوگیا بلکہ اپنی مستقل علالت کے باعث وہ بعد میں بھی اسے محفوظ نہ کرسکیں۔ ذاتی طور پر اُن سے یہ مختصر مگر براہ راست تعلق میری زندگی کی حسین یادوں میں سے ایک ہے اور اب اُن کے جانے کے بعد میں اُن کروڑوں لوگوں کی بھیڑ میں شامل ہوں جن کے کانوں نے اس تاریخ ساز بلکہ اپنی جگہ پر خود ایک تاریخ کی روحوں میں اُتر جانے والی شیتل اورخوب صورت آواز کو سنا جس کا جادو کچھ دیر کے لئے ہی سہی آپ کو دنیا کے ہر غم، رنجش اور دباؤ سے آزاد کردیتاہے۔

موٹروے سے واپسی کے سفر میں اُن کے لئے ایک نظم نے ذہن میں انگڑائی لی اور چند ہی گھنٹوں میں یہ گیت نما نظم اپنے پیروں پر کھڑی ہوگئی ابھی اس کی Fine Tunning کا عمل جاری ہے یعنی ممکن ہے کہ جب یہ میرے کسی شعری مجموعے میں شامل ہوتو اس میں کچھ مزید تبدیلیاں واقع ہوچکی ہوں مگر فی الوقت یہ اُس فوری تاثر کا ایک اظہاریہ ہے جس سے میں گزرا ہوں اور اُمید کرتا ہوں کہ آپ بھی اسے اپنے دل سے قریب پائیں گے۔

گُم سُم گُم سُم ساز پڑے ہیں، سُر کی رانی چلی گئی
اُجڑ گئی رنگوں کی دنیا
رُوٹھ گئی پھولوں سے خوشبو
خشک ہوا سنگت کا دریا
کرکے دنیا کو دیوانہ وہ دیوانی چلی گئی
جب جب بھی وہ تان لگاتی
وقت کا پہیّہ رک جاتا اور
سرگم اُس میں گم ہوجاتی
اُتر گئے رازوں کے چہرے لَے کی جوانی چلی گئی
جیسے ہوں بچپن کے میت
جیون کے ہر درد کا درماں
مرہم جیسے اُس کے گیت
سات سُروں کا دریا تو ہے، اُس کی روانی چلی گئی
خوابوں کے دَر کھولنے والی
بکھر گئی وہ گُل آواز
کانوں میں رَس گھولنے و الی
ڈوب گیا وہ صبح کا تارا، شام سہانی چلی گئی
اُس کے گیتوں کی مہکار
اک سی آتی جاتی تھی
ملکوں کا سرحد کے پار
مست کیا ہر دل کو جس نے وہ مستانی چلی گئی
گُم سُم گُم سُم ساز پڑے ہیں سُر کی رانی چلی گئی

تیکھی غزلوں کا شاعر-امجداسلام امجد

گستاخی معاف-امجداسلام امجد

گستاخی معاف-امجداسلام امجد

گستاخی معاف

دیکھا جائے تو ہماری سیاست بھی اس روائتی کمبل جیسی ہے جسے آپ چھوڑنا بھی چاہیں تو یہ آپ کو نہیں چھوڑتی ہم نے پی ٹی آئی کی حکومت میں جھوٹے اور سچے ہرطرح کے نقص ڈالے اور نکالے اور پھر اپنے تیئں اُس سے جان بھی چھڑالی لیکن اب گزشتہ دو ماہ سے یہ نجات دہندہ حضرات پوری قوم کے ساتھ صبح و شام جو سنگین مذاق روا رکھے ہوئے ہیں اُسے کس خانے میں ڈالا جائے بالخصوص وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے آئی ایم ایف کی موجودہ قسط بحال کرانے کے دوران جو عجیب وغریب بیانات دیئے ہیں اُنہیں جلتی پر تیل کے علاوہ اور کوئی نام نہیں دیا جاسکتا جس عاجزانہ بے دردی سے وہ ہر دوسرے دن پہلے سے زیادہ بری خبر لے کر ٹی وی پر آتے ہیں اور جس بے معنی تکرار سے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کا کریڈٹ لیتے ہیں وہ عام عوام سمیت ہر طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے لیئے ایک عبرت کا نشان بن گیا ہے پی ٹی آئی کا بجٹ تک پٹرول کی قیمت نہ بڑھانے کا فیصلہ اور اُس سے ہونے والا مالی نقصان اپنی جگہ لیکن اسے کوئی نام نہاد بارودی سرنگ قرار دینا اور اپنے بعد آنے والی حکومت کے لیئے دشواریاں پیدا کرنا اس اعتبار سے ایک غیر منطقی بات ہے کہ اس اعلان کے وقت نہ تو کوئی تحریکِ عدمِ اعتماد کہیں سامنے تھی اور نہ ہی پی ٹی آئی حکومت کا قبل اَز وقت خاتمہ، امریکی سازش یا رجیم چینج کا کوئی نشان واضح تھا اب اگر بجٹ بھی اُسی حکومت کو پیش کرنا تھا اور آئی ایم ایف سے وعدہ خلافی یا حکم عدولی کا حساب بھی اُنہی کو دینا تھا تو عملی طور پر وہ یہ بارودی سُرنگیں خود اپنے لیئے بچھا رہے تھے پنجابی زبان میں ایک محاورہ ہوتا ہے ”موت دکھا کر بخار پر راضی کرنا“ تو لگتا یہی ہے کہ اُس تصوراتی دیوالیہ پن کا شور بھی کچھ اس سے ملتی جلتی چیز ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران حکومت نے اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں بہت سی غلطیاں کی ہیں لیکن جو غلطیاں اس وقت جواباً کی جارہی ہیں اُن کی نوعیت، سنگینی اور تعداد عوام پر پڑنے والے تباہ کن اثرات کے حوالے سے کہیں زیادہ سنگین اور تکلیف دہ ہے ہر جماعت کی طرح مسلم لیگ ن میں بھی کچھ اچھے ”سمجھ دار“ مہذب اور با خبر لوگ یقیناً موجود ہیں بالخصوص مجھے ذاتی طور پر ڈاکٹر مصدق ملک اور موجودہ صوبائی وزیر قانون ملک احمد نے زیادہ متاثر کیا ہے لیکن میں نے محسوس کیا ہے کہ مفتاح اسماعیل کے اقدامات کی وضاحت اور اعانت میں اُن کی زبان بھی لڑکھڑانے لگتی ہے۔


اس تجزیے سے ہرگز میرا مطلب پی ٹی آئی کی حمائت اور مسلم لیگ ن کی مخالفت نہیں ہے کہ میں پاکستان کے ایک آزاد اور محبِ وطن شہری کی حیثیت سے اپنے ملک کے بگڑتے ہوئے امیج اور اس میں بسنے والی مجبور اور بے بس خلقِ خدا کے حقوق اورشب و روز کی بات کر رہا ہوں اور اس حوالے سے اس بات کا کھل کر اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ یہ ملک کسی کی ضد اور انّا اور کسی کے جرائم کو قانونی تحفظ دینے کے لیئے نہیں بنایا گیا تھا ان دونوں کو سب سے پہلے اپنی جماعتوں اور خود کو ملک کی ترقی، نیک نامی اور عزت کے لیئے کسی نہ کسی سطح پر مل کر کام کرنا ہوگا کہ ملک کا مفاد بہرحال ان کے ذاتی اور جماعتی مفاد سے بلند ہے اور اسے ایسا ہی ہونا چاہیئے۔


میں یہ بھی نہیں کہتا کہ عام آدمی کی زندگی جس طرح ایک مسلسل عذاب سے گزاری جارہی ہے وہ بالکل غلط یا سراسر نالائقی ہے مسائل یقینا ہیں اور ان سے نمٹنے کے لیئے سب کو ایک ساتھ مل کر ان کا بوجھ بھی اُٹھانا ہوگا مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کسی کے پانچ روپے کی جگہ پٹرول کی قیمت میں 100روپے کا اضافہ کردیں اور اس کے باوجود یہ بھی کہتے رہیں کہ اگر ہم گزشتہ حکومت کی لائن پر چلتے رہتے تو یا تو یہ ٹیکس اور بھی زیادہ ہوتا یا ملک ایک دم دیوالیہ ہوجاتا۔

 
کویت سے نعمت والے برادرم شاہد اقبال نے عوام کے جلے کٹے جذبات اور احساسات کے ترجمان چند شعر بھجوائے ہیں جو میں بغیر کسی تبدیلی یا کانٹ چھانٹ کے درج کر رہا ہوں تاکہ اس آواز کو حاکمانِ وقت سمیت ہم سب سُن اور سمجھ سکیں البتہ اس سے اتفاق کرنا یا نہ کرنا ہر شخص کی اپنی صوابدید ہے۔

ابر کے چاروں طرف باڑ لگا دی جائے
مفت بارش میں نہانے پہ سزا دی جائے
سانس لینے کا بھی تاوان کیا جائے وصول
سبسڈی دھوپ پہ کچھ اور گھٹا دی جائے
رُوح اگر ہے تو اسے بیچا خریدا جائے
ورنہ گودام سے یہ جنس ہٹا دی جائے
قہقہہ جو بھی لگا ئے اُسے بِل بھیجیں گے
پیار سے دیکھنے پہ پرچی تھما دی جائے
تجزیہ کرکے بتاؤ کہ منافع کیا ہو!
بوندا باندی کی ا گر بولی چڑھا دی جائے
آئینہ دیکھنے پہ دُگنا کرایہ ہوگا
بات یہ پہلے مسافر کو بتادی جائے
تتلیوں کا جو تعاقب کرے چالان بھرے
زلف میں پھول سجانے پر سزا دی جائے
یہ اگر پیشہ ہے تواس میں رعائت کیوں ہو
بھیک لینے پہ بھی اب چُنگی لگا دی جائے
کون انسان ہے کھاتوں سے یہ معلوم کرو
بے لگانوں کی تو بستی ہی جلا دی جائے
کچی مٹی کی مہک مفت طلب کرتا ہے
قیس کو دشت کی تصویر دکھا دی جائے
حاکمِ وقت سے قزّاقوں نے سیکھا ہوگا
باج نہ ملتا ہو تو گولی چلا دی جائے

تیکھی غزلوں کا شاعر-امجداسلام امجد

اچھی گفتگو-امجداسلام امجد

اچھی گفتگو-امجداسلام امجد

اچھی گفتگو

ایک دن سیّد سرفراز احمد شاہ صاحب سے باتوں باتوں میں رسول پاکؐ کی ایک حدیثِ مبارک کا ذکر چل نکلا جس کا مفہوم کچھ یوں تھا کہ ”لوگوں سے اچھی اچھی باتیں اچھے انداز میں کیا کرو“ موضوعِ بحث یہ تھا کہ ا چھی اچھی باتوں کا اشارہ لوگوں یا سننے والوں کی دل پسند باتوں کی طرف ہے یا عمومی خیر کی باتوں کی سمت اور یہ کہ اچھے انداز کا یہاں کیا مفہوم ہے؟ کیا اس سے مطلب باتوں کا بناؤ سنگھار یا خوشنما لفظوں کا انتخاب ہے یا طرزِ بیان کی محبت اور اپنائیت پر زور دیا گیا ہے۔ سرفراز شاہ صاحب نے اپنے مخصوص سادہ اور مختصر انداز میں اس کی کم وبیش وہی وضاحت کی جو میرے ذہن میں ایک نسبتاً طویل اور قدرے اُلجھے ہوئے انداز میں موجود تھی اتفاق سے کل کے ایک ہی دن میں میری نظر سے تین ایسی تحریریں گزریں جن کا مرکزی موضوع انہی اچھی باتوں کی مختلف جہات سے تھا۔ پہلی تحریر امام غزالیؒ کا ایک قول تھا جو برادرم شفیق عباسی نے اپنے روزانہ کے پیغام کی شکل میں بھجوایا جو کچھ اس طرح سے ہے کہ

 
”اگر آپ زندہ ہیں تو غلط باتوں کی مخالفت کرنا سیکھیں، کیونکہ لہروں کے ساتھ لاشیں بہا کرتی ہیں، تیراک نہیں“


دوسری تحریر اپنے ”23دن“ والے محترم دوست ظفر محمود کا اخباری کالم تھا جس میں اُنہوں نے انگلش میڈیم کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی ایک نازیبا اور گمراہ کن پریکٹس کی طرف اشارہ کیا تھا کہ چونکہ غیر ملکی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم کے خواہش مند بچوں کی اہلیت کی شرائظ میں اُن لوگوں کے پبلک سروس یا رفاہِ عامہ کے کاموں میں حصہ لینے کو بھی شامل کیا گیا ہے اس لیے یہ ادارے اُن ”خدمت میں مصروف“ بچوں کی تصویریں تو بنا کر بھیج دیتے ہیں مگر اُن کی یہ کارکردگی صرف انہی تصویروں اور اُن سے متعلق سرٹیفکیٹ تک محدود ہوتی ہے یعنی خدمتِ خلق اور نیکی کے کاموں کو بھی بزنس اور اداکاری کا حصہ بنا دیا گیا ہے اور یوں ایک بہت اچھی بات کو ایک ایسا رنگ دے دیا گیا ہے جن سے ان بچوں کے نزدیک”خِدمت خلق“ ایک ڈھونگ کی سی شکل اختیار کر جاتی ہے جس کا منفی اثر اُن کا آئندہ کی زندگیوں پر بہت آسانی اور فراوانی سے دیکھا جاسکتا ہے لیکن جس بات نے مجھے اس موضوع پر کالم لکھنے کی تحریک دی اس کے مصنف کا نام میرے علم میں نہیں لیکن یہ تحریر اتنی پُر اثر اور فکر انگیز ہے کہ اسے قارئین تک پہنچانا ایک باقاعدہ نیکی کمانے کا سا عمل ہے اس کا عنوان ”اچھی گفتگو کیسے کریں“ رکھا گیا ہے اور اس کی تحریک کا سلسلہ مرحوم اقبال احمد صاحب سے جوڑا گیا ہے جو انڈیا کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئے والدین زمین کے جھگڑے میں اُن کی آنکھوں کے سامنے قتل ہوگئے۔ 1947ء میں اپنے بھائی کے ساتھ بِہار سے پیدل لاہور پہنچے ایف سی کالج میں داخلہ لیا اکنامکس میں ڈگری لی اور سکالر شپ پر کیلی فورنیا امریکہ کے کالج میں داخل ہوئے اور سیاست اور مڈل ایسٹ ہسٹری پڑھانا شروع کر دی ابن ِ خلدون کی محبت میں گرفتار ہوئے اور خود کو مڈل ایسٹ اور شمالی افریقہ کی تاریخ کے لیے وقف کردیا۔

 

نوم چومسکی، ایڈورڈسعیداور ارون وتی رائے جیسے دانشور اقبال احمد سے متاثر ہوئے اور انہیں اپنا دوست بنا لیا۔ 1999ء کو ہارٹ اٹیک سے انتقال کرگئے یہ کتنے بڑے سکالر اور انسان تھے آپ اس کا اندازہ صرف ایک بات سے لگا لیجئے کہ اُن کے انتقال پر ہیمپشائر کالج نے جو تعزیتی تقریب منعقد کی اس تقریب میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان،ا یڈورڈ سعید، نوم چومسکی اور ارون وتی رائے جیسے لوگ شریک ہوئے اور کھل کر اُن کی خدمات کا اعتراف کیا۔


اقبال احمد کا یہ سارا بیک گراؤنڈ صرف ایک واقعہ سنا نے کے لیے لکھا، ایک دن اُن کے ایک دوست نے اُن سے پوچھا ”آپ پاکستان میں رہتے ہوئے امریکہ، یورپ اور مڈل ایسٹ کی کون سی چیز مِس کرتے ہیں۔ یہ مسکراکر بولے ”اچھی گفتگو“ پوچھنے والے نے حیرت سے پوچھا کیا مطلب؟ یہ بولے، ”دنیا جہان میں پڑھے لکھے لوگوں کے پاس گفتگو کے بے شمار موضوعات ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں اَن پڑھ ہوں یا پڑھے لکھے، ریڑھی والے ہوں یا آفس میں بیٹھے باس، اُن کے پاس سیاست یا سکینڈلز کے علاوہ کوئی موضوع نہیں ہوتا۔ آپ جس بھی محفل میں بیٹھ جائیں اور کوئی بھی موضوع چھیڑدیں وہ محفل چند منٹوں میں سیاست اور سیاست دانوں کے سکینڈلز میں تبدیل ہوجائے گی۔ دنیا بھرمیں لوگ آئیڈیاز پر بات کرتے ہیں لیکن پاکستان میں ہر جگہ شخصیات آئیڈیاز کی جگہ لے لیتی ہیں چنانچہ میں پاکستان میں اچھی گفتگوکو miss کرتا ہوں“۔
اقبال احمد نے آج سے 25 برس قبل ہمارے ملک کی نفسیاتی حالت پر کیا خوب صورت تبصرہ کیا تھا اور یاد رہے کہ یہ صورتِ حال سوشل میڈیا اور واٹس ایپ سے پہلے کے پاکستان کی تھی۔ ہمارے ملک میں واقعی،ا چھی گفتگو کا خوف ناک قحط ہے، آپ ملک کے کسی حصے میں چلے جائیں، کسی فورم کسی گروپ کا حصہ بن جائیں آپ کو سیاسی افواہوں، سیاسی لطیفوں اور سیاسی گپ شپ کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا اور آپ اگر کسی طرح سے سیاست سے جان چھڑا بھی لیں تو آپ مذہبی گفتگو کے تالاب میں گِر جائیں گے اور وہ ساری بات چیت بھی سیاسی گفتگو کی طرح غیر مصّدقہ واقعات پر مشتمل ہوگی۔

 
انسان بولنے والا جانور ہے یہ اظہار کرتا ہے اور اظہار کے لیے آئیڈیاز چاہیے ہوتے ہیں اور آئیڈیاز کے لیے معلومات اور علم درکار ہوتا ہے ا ور علم اور معلومات کے لیے پڑھنا اور گھومنا اور گھومنے اور پڑھنے والے لوگوں کی صحبت میں بیٹھنا پڑتا ہے اور ہم یہ کرتے نہیں ہیں لہٰذا پھر ہم کیا سُنیں گے اور کیا سنائیں گے؟ ہم کیا گفتگو کریں گے، نیا خیال، نیا آئیڈیا کہاں سے آئے گا؟ اس لیے اس معاشرے میں علم، معلومات،ا چھی گفتگو، نئے آئیڈیاز کی کمی ہے، چنانچہ اس کمی نے ہمارے معاشرے میں ایک اچھی گفتگو کا بحران پید اکرد یا ہے۔اچھی گفتگو کے لیے ضروری ہے کہ خوشامد اور تحسین میں فرق رکھا جائے خوشامد جھوٹی بات اور تحسین پُرخلوص بات ہوتی ہے لوگوں کے ساتھ بات کریں تو اُن کی ضرورتوں پر بات کریں اور اس کی تکمیل کا راستہ بنایا جائے، ہمیشہ دوسروں کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کریں لوگوں میں سچی دلچسپی لیں یہ آفاتی سچائی ہے کہ ہر وہ آدمی جس سے آپ ملتے ہیں اپنے آپ کو کسی نہ کسی طرح آپ سے بہتر خیال کررہا ہوتا ہے ا ور اس کے دل میں گھر کرنے کا یہ بہترین طریقہ ہے کہ اسے باور کرائیں کہ آپ اس کو ایک اہم شخصیت جانتے ہیں حُجت بازی سے ہمیشہ پرہیز کریں کبھی کوئی بحث و تکرار سے نہیں جیت سکا دوسروں کے نقطہئ نظر سے چیزوں کو دیکھنا اور اس کے منہ سے ”ہاں“ کہلوانا بہت نفع بخش اور دلچسپ بات ہے ہمیشہ دوسرے شخص کو زیادہ سے زیادہ بات کرنے کا موقع دیں اپنے کارناموں کا تذکرہ کم سے کم کریں اور اعتدال پسندی سے کام لیں اس دنیا میں ہم سب کو جو آواز اچھی لگتی ہے وہ ہمارے اپنے نام کی ہے کسی آدمی کا نام اس کے لیے سب سے میٹھی اور اہم آواز ہے یہی وجہ ہے کہ جب بھی ہم نیا پین لیتے ہیں تو سب سے پہلے اس سے اپنا نام لکھتے ہیں لہٰذا لوگوں کو اچھے ناموں سے پکارا کریں اس سے معاشرے میں بہتری بھی آئے گی اور آپ بھی مطمئن زندگی گزاریں گے اور آخر میں ایک نامعلوم شاعر کی انگریزی نظم کا آزاد ترجمہ کہ اس کا موضوع بھی کم وبیش یہی ”اچھی گفتگو“ ہے

دنیا کو ہم کیسے دیکھیں
اصل خوشی کا اَزلی دشمن دل میں رکھا کینہ بھی ہے
ممکن ہو تو ہر غصے کو ہنس کر ٹالو، بُھول اگر ہو فوراً مانو
اور جو اپنے بس میں ہو تو اُ س بے موقع تبدیلی سے ہاتھ اُٹھالو
گہری چاہت، جلد معافی کو اپنا انداز بنا کر پورے دل سے
ہر کوشش میں جان لڑاؤ
پھر بھی ہار ملے تو ان کا غم مت کرنا
نا خوش رہنا ہو تو پھر یہ عمر بہت ہی تھوڑی ہے
غم ہو یا مسکان کا لمحہ، دونوں دل کے ساتھی ہیں
جو ملتا ہے اس کو دیکھو او رپھر اس کی قدر کرو
”جانے دو، پر بھولومت“
بھول سے اپنی سیکھو لیکن اس کا ماتم ٹھیک نہیں
ہر شے بالکل ”ٹھیک“ نہ ہوگی لوگ بھی چہرے بدلیں گے
لیکن ہر دم یاد یہ رکھنا
”کچھ بھی ہو پر اس دنیا نے یونہی چلتے جانا ہے
وقت ہی بس ہے ایک حقیقت باقی سب افسانہ ہے۔“

تیکھی غزلوں کا شاعر-امجداسلام امجد

جن سے مل کر زندگی سے پیار ہوجائے وہ لوگ

جن سے مل کر زندگی سے پیار ہوجائے وہ لوگ

جن سے مل کر زندگی سے پیار ہوجائے وہ لوگ

ایک عمومی مشاہدہ ہے کہ وطنِ عزیز میں بیشتر لوگ ”حقوق“ کی بات کرتے ہوئے ”فرائض“ کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں امرِ واقہ یہی ہے کہ تالی ہمیشہ دو ہاتھوں سے بجتی ہے اور یہ کہ ایک ہاتھ سے صرف تھپڑ ہی مارا جاسکتا ہے جس سے فساد اور معاملے کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا ہے نیز یہ کہ اپنی دی یا لی ہوئی ذمہ د اری کو بطریق احسن ادا کیا جائے آئیڈیل صُورت تو یہی ہے کہ آپ کا پیشہ اور شوق یعنی Passion & Profession آپس میں ملتے جلتے ہوں تاکہ آپ کی وابستگی میں مضبوطی اور نتائج میں بہتری پیدا ہولیکن اگر کسی وجہ سے ایسا نہ ہو سکے تو پھر پیشے کو ہی شوق بنانے کی کوشش کرنی چاہیئے تاکہ آپ زندگی کو بہتر طور پر گزار سکیں اور معاشرہ بھی آپ سے شاکی نہ ہو۔


یہ تھا وہ مرکزی موضوع اور جذبات کو آسودہ کرنے والا ماحول جس میں گزشتہ ہفتے دو نہایت قیمتی اور ہر اعتبار سے کامیاب انسانوں اور دردِ دل رکھنے والے دوستوں سے ڈیڑھ دو گھنٹے کی ایک ا یسی ملاقات رہی جس نے رُوح پر لگے اور معاشرے میں پھیلے ہوئے بہت سے جالوں کو نہ صرف صاف کیا بلکہ بہت سی ذہنی اُلجھنوں کو بھی دُور اور کم کیا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ہماری بہت عزیز دوست دردانہ انصاری جو بی بی سی لندن کے ساتھ طویل اور شاندار رفاقت کے بعد اب ملکہ برطانیہ کی طرف سے برٹش نیوی کے اعزازی کمانڈر کے رُتبے پر فائز ہیں اور اس حوالے سے واحد ایشیائی پس منظر کی حامل خاتون بھی ہیں جبکہ اُن کے ہمراہ غیر متوقع طور پر ایک خوشگوار حیرت کے سے انداز میں برطانیہ میں پاکستان کے سابق سفیر اِبن عباس نے بھی زحمت فرمائی اُن کے تعارف میں یہ کہنا ہی کافی ہوگا کہ گزشتہ 40 برس میں مجھے مختلف ممالک میں کم و بیش اتنے ہی پاکستانی سفارت کاروں سے ملنے کا موقع ملا ہے اور اُن میں سے جو تین یا چار لوگ سب سے نمایاں اور متاثرکُن رہے اِبنِ عباس اُن میں سے ایک ہیں مشاعروں وغیرہ کے حوالے سے بیرون ملک ایک سو سے زیادہ بار جانے کا موقع ملا ہے ہر جگہ میزبان اپنی پاکستانی کمیونٹی کے لوگ ہی تھے لیکن سوائے ان متذکرہ بالا تین چار سفیر حضرات کے ہر ایمبیسی اور اس کے عملے کے بارے میں گوناگوں شکایات ہی سننے کو ملی ہیں برطانیہ اس حوالے سے بہت ہی مشکل سٹیشن ہے کہ یہاں ایک اندازے کے مطابق پاکستان سے باہر سب سے زیادہ پاکستانی آباد ہیں وہاں کے کم و بیش پندرہ اسفار کے دوران اِبنِ عباس واحد سفیر تھے جن کے بارے میں ہر شعبے، علاقے اور طبقے کے لوگ خوش اور معترف نظر آئے گفتگو کا دور چلا تو وہ اپنے عہدے کے تقاضوں کو نبھانے کے ساتھ ساتھ زندگی کے کم و بیش ہر موضوع پر اپنی کم گوئی کے باوجود حاوی نظر آئے وطنِ عزیز کی ترقی کی خواہش کے ساتھ ساتھ اُن کا ذہن صورتِ حال کی مسلسل اَبتری اور ہمارے قومی روّیوں کے بارے میں بہت صاف، پُرامید اور واضح تھا اتفاق سے اس ملاقات کے دوران بھی یہ موضوع کچھ دیر کے لئے چہرہ نما ہوا اور میں نے محسوس کیا کہ اب اُن کے Optimism یعنی رجائیت پسندی میں کمی اور فکر مندی میں پہلا سا توازن نہیں کہ انہوں نے بار بار اس مسئلے پر میری رائے کو جاننے کی کوشش کی انہوں نے بتایا کہ فارن سروس سے ریٹائرمنٹ کے بعد تین سال پبلک سروس کمیشن میں خدمات سرانجام دینے کے بعداب وہ لاہور ڈیفنس میں ہی رہائش پذیر ہیں حکومت کو چاہیئے کہ ایسا وسیع تجربہ اور شفاف کردار رکھنے و الے ان ہنر مند لوگوں کی خدمات سے فائدہ اُٹھائے اور ان کو ان کی مخصوص قابلیت کے مطابق کسی تھنک ٹینک میں شامل کرے کہ 74سال سے اس انتہائی اہم شعبے پرہم وہ توجہ نہیں دے سکے جو اس کا حق ہے۔

 
دردانہ انصاری سے پہلی ملاقات تیس برس قبل سنگِ میل پبلی کیشنز کے دفتر میں مرحوم نیاز صاحب کے روائتی لنچ پر ہوئی معلوم ہوا کہ وہ بی بی سی اُردو سروس سے متعلق ہیں اور اس ضمن میں کچھ پاکستانی ادیبوں سے انٹرویو ریکارڈ کرنے کے لئے آئی ہیں اُن کے بولنے اور بات کرنے کا انداز بہت خوبصورت تھا لیکن ا س سے بھی زیادہ متاثر کن بات یہ تھی کہ اتنا عرصہ انگلستان میں رہنے کے باوجود اُن کی بول چال کا انداز خالص مشرقی تھا بعد ازاں لندن کے مختلف اسفار کے دوران اُن سے سرسری ملاقاتیں رہیں اور ہر بار میں نے انہیں پہلی ملاقات کی طرح خوش اور اپنے کام سے مخلص اور پُرجوش پایا۔ کچھ برس قبل لندن میں ڈاکٹر جاوید شیخ کے گھر پر منعقدہ ایک محفل میں اُن سے تفصیلی ملاقات ہوئی تو اُن کے کچھ ایسے جوہر کُھلے جو نئے بھی تھے اور بہت دلچسپ بھی، پتہ چلا کہ اچھا بولنے اور لکھنے کے ساتھ ساتھ وہ بہت اچھا گاتی بھی ہیں اور انہیں کئی شاعروں کا کلام اَز بر ہے لیکن سب سے زیادہ چونکا نے والی بات نیوی کے کمانڈر کا وہ اعزازی عہدہ تھا جو ملکہ برطانیہ کی طرف سے دیگر اعزازت کے ساتھ انہیں دیا گیا اُن کی فوجی وردی میں ملبوس تصویر اور نیوی میں اُن کے کارنامے جان کر یہ یقین کرنا بہت مشکل ہوجاتا تھا کہ یہ وہی دردانہ انصاری ہیں جنہیں ہم برسوں سے جانتے ہیں۔ ایک نرم و نازک سی مشرقی آداب اور روایات میں ڈھلی ہوئی لڑکی جس کا Passion شعرو ادب اور صدا کاری ہو وہ کیسے اس بالکل مختلف اور مشکل Profession کے تقاضوں کو اس قدر کامیابی سے نبھا سکتی ہے یہ بات اب تک پوری طرح سے میری سمجھ میں نہیں آئی۔


دردانہ نے فون پر بتایا کہ وہ تین دن کے مختصر دورے پر پاکستان آرہی ہیں جس کا بنیادی مقصد غالباً اُن کی والدہ کی سفر میں معاونت تھی کہ آج کل کے حالات، سفری پابندیوں اور طویل فلائٹس کی وجہ سے کسی بزرگ خاتون کا اکیلے سفر کرنا اور بھی مشکل ہوگیا ہے اور اُن کے بقول ا س کے بعد انہیں صرف لاہور میں مجھ سے اور اسلام آباد میں اپنی مصورّہ بیٹی سے ملنا تھا اِبنِ عباس کی ہمراہی میں اُن سے ہونے والی ملاقات کے ایجنڈے میں برادرم ڈاکٹر جاوید شیخ کی یادداشتوں پر مبنی کتاب کے بارے میں ایک ویڈیو پیغام بھی ریکارڈ کرانا تھا جسے اس کتاب کی لندن میں ہونے و الی تقریبِ رونمائی میں ا ستعمال کیا جاسکے۔


سردیوں کی بہت خوشگوار دھوپ میں ہونے و الی فی البدیہہ گفتگو کا حاصل ہم تینوں کی یہ Conviction تھی کہ تمام تر خرابیوں کے باوجود وطنِ عزیز اس کا معاشرہ اور لوگ اُس خوش حال پاکستان کو تعمیرکرنے میں بالآخر کامیاب ہوں گے جس کی بنیاد قائد کے پیغام”اتحاد، ایمان اور تنظیم“ پر ہوگی۔

تیکھی غزلوں کا شاعر-امجداسلام امجد

بلوچستان میں دو دن-امجداسلام امجد

بلوچستان میں دو دن-امجداسلام امجد

بلوچستان میں دو دن

کوئٹہ(بلوچستان) میں دو بہت خوشگوار دن گزارنے کا موقع تو وہاں کی شاندا یونیورسٹی Btemsکے تیسرے لٹریچر فیسٹیول کی معرفت ملا مگر اس کا شکریہ اُن کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے تمام بھائیوں کی خدمت میں بھی واجب ہے کہ یہ تجربہ میری توقع سے کہیں زیادہ خوشگوار، حوصلہ افزا اور دل خوش کن تھا اللہ بھلا کرے ہمارے میڈیا اور سرکاری خبر رساں ایجنسیوں کا کہ جن کی بنائی ہوئی تصویر کے مطابق وہاں جانا آگ میں چھلانگ لگانے کے مترادف تھا اس میں کوئی شک نہیں کہ وطنِ عزیز کے دوسرے صوبوں بلکہ دنیا بھر میں نسل، رنگ، قومیت، زبان، وسائل، بے انصافی اور بعض بالکل مقامی مسئلوں کی وجہ سے کچھ لوگ اپنی ناراضی کا اظہار بوجوہ مختلف قابلِ اعتراض اور تشدّد آمیز روّیوں سے کرتے ہیں اور اگر ان میں ہمسایہ ممالک اور عالمی سیاست کے نا خداؤں کی شمولیت بھی ہوجائے تو یہ تصویر مزید گہری اور گنجلک ہوجاتی ہے ہمارا پیارا صوبہ بلوچستان بھی اپنی جغرافیائی نوعیت، معدنی وسائل، قبائلی تضادات، غربت، معاشرتی بے انصافیوں اور غیر ملکی مدد اور پراپیگنڈے کی وجہ سے مختلف طرح کے مسائل کا شکار ہے مگر اس کی جو منفی تصویر ہمارامیڈیا سیاسی مبصرین اور حکومتی بزرجمہر کثرت اور تسلسل سے دکھا رہے ہیں وہ بھی اپنی جگہ پر ایک مسئلہ ہے اور وہاں دو دن گزارنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا ہے کہ ا گر صرف یہ سارے آگ لگانے والے ادارے ان ٹھنڈے چشموں،آبشاروں اور محبت اور سادگی کے د ریاؤں کا بھی مناسب اور جائز ذکر اپنا شعار بنالیں تو غلط فہمیوں، مفادات اور بیرونی اثرات کا یہ پہاڑ زیادہ سے زیادہ چھوٹے چھوٹے ٹیلوں کی شکل میں باقی رہ جائے گا۔ جنہیں دو طرفہ محبت اور حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے مزید کم ہی نہیں بلکہ تحلیل بھی کیا جاسکتا ہے۔

کوئی ایک ماہ قبل جب مجھے یونیورسٹی کے وائس چانسلر ذاکر فاروق بازئی کا پیغام ملا کہ وہ کورونا کی و جہ سے دو سال تک معطل رہنے والے لٹریچر فیسٹیول کا احیا کررہے ہیں اور اس ضمن میں وہ میری شمولیت کے خواہش مند ہیں تو اگرچہ میں 2018ء کے پہلے فیسٹیول میں شمولیت کا خوشگوار تجربہ رکھتا تھا میرے سامنے ایک دم کوئٹہ اور بلوچستان سے متعلق مختلف حوالوں سے منفی خبروں اور خدشوں کا ایک خطرناک منظر جمہوریت پذیر ہونے لگا اور اگرچہ میں مرزا داغ کے مصرعے کے مطابق مناظر ے یا لحاظ سے مان تو گیا مگر ہوائی جہاز کے کوئٹہ ائیر پورٹ پر اُترنے تک ایک نامعلوم سا بھی ساتھ ساتھ حائلِ پرواز رہا۔ بے مثال مقررہ،، دانشور میری بہت عزیز اور محترم دوست ڈاکٹر، عارفہ سیّدہ بھی میرے ساتھ تھیں سب اور وہ بھی میری طرح چار پانچ سال کے وقفے سے جارہی تھیں سے پہلی خوشگوار مسّرت ائیر پورٹ میں کی جانے و الی تبدیلیوں کو دیکھ کر ہوئی جو پہلے کی نسبت کہیں زیادہ وسیع اور خوب صورت تھا برادرم سرور جاوید یونیورسٹی کے خیر مقدمی عملے کے ساتھ سراپا مسکراہٹ بنے ہمارے منتظر تھے نوجوان پروفیسر شاہ رخ نے بتایا کہ یونیورسٹی کا کیمپس بھی نزدیک ہی ہے لیکن یہ ہماری اُس جائے قیام سے مختلف سمت میں ہے جہاں میں اس سے پہلے کئی بار ٹھہر چکا تھا کہ یہ جگہ ہر اعتبار سے بہت معقول تھی البتہ کچھ عرصہ قبل اس کی پارکنگ روٹ میں دہشت گردی کی ایک واردات کے بعد داخلے کی کاروائیاں اور زیادہ سخت کردی گئی تھیں۔

ادبی میلے کے افتتاحی اجلاس سے ”ثقافت آج اور کل“ کے عنوان سے ایک مذاکرہ نما گفتگو رکھی گئی تھی جو تھی تو ڈاکٹر عارفہ اور میرے درمیان مگر اس میں کبھی کچھ۔۔۔۔بھرے ہوئے خوبصورت اور وسیع ہال میں طلبہ و طالبات اور دیگر احباب سب کے سب ایک طرح سے شریک تھے کہ ثقافت کسی قوم کی اجتماعی تہذیب کا حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنا ایک مقامی وجود بھی رکھتی ہے بہت سے والنٹیرجن طلبہ اور اساتذہ کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کے لوگ بھی شامل تھے بہت ذمہ داری اور خوش دلی کے ساتھ اپنے اپنے حصے کا کام کررہے تھے علامہ صاحب نے کہا تھا۔

فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہئ صحرائی یا مردِ کہستانی

تو سچی بات یہ ہے کہا ں احبابِ کہستانی نے ڈسپلن اور مہمان داری، دونوں کی حد کردی ان کی سادگی اور انسانی مساوات کا یہ منظر بے حد روح پرور تھا کہ آقا و غلام، بڑے اور چھوٹے، کمزور اور طاقتور سب معاشرتی سطح پر ایک د وسرے کی عزت نفس کا احترام کرتے ہیں اور جس طرح ہماری طرف کے لوگ اپنے نام نہاد اعلیٰ عہدوں کی بنا پر خود بخود اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھنے لگتے ہیں یہاں اُس طرح کی صاحبی کے لیے سرے سے کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔

دوسری خوب صورت اور حوصلہ افزا بات طلبہ و طالبات کا ڈسپلن، دلچسپی، علم و اددب سے محبت اور دانش کا احترام تھا جس بڑی تعدادمیں اور جس انہماک سے انہوں نے مقررین کی باتوں کو سنا اس کی داد اُن کے ساتھ ساتھ ان کے اساتذہ اور وی سی صاحب کو بھی ملنی چاہیے پانچ ہالوں میں دو دن کے اندر 458کے قریب سیشن ہوئے جن میں سو سے زیادہ مہمان مقررین نے اپنے اپنے موضوع کے مطابق بہت عمدہ، گہری اور تخلیقی انداز کی باتیں کیں۔پہلے دن کا آخری سیشن اُردو مشاعرہ تھا جہاں برادرم سرور جاوید، بیرم غوری اور محسن شکیل سمیت دانیا ل طریز مرحوم کی تینوں بہت ذہین،علم دوست اور شاعر بہنوں سے بھی ملاقات رہی ان سمیت اس سفر کے دوران محسن شکیل کی بیوروکریٹ بیٹی اور برادرم حامد عتیق سرور کی عزیزہ جو پولیس میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہے سے بھی ملنا ہوا ان سب بچیوں کی ذہانت،ا عتماد، ترقی اور خود اعتمادی کو دیکھ کر بے حد مسّرت ہوئی کہ میڈیائی اطلاعات کے مطابق تو وہاں لڑکوں کو بھی ترقی کرنے کے مواقع نہیں ملتے۔

جس محبت اور کشادہ دلی سے ان دوستوں نے اپنے مہمانوں کا خیال رکھا اور اپنے اپنے شعبوں میں اعلیٰ مقامات حاصل کرنے کے باوجود اپنی فطری سادگی کے ساتھ ساتھ ادب سے اپنی وابستگی کا اظہار کیا اس کا بہت ہی رُوح پرور احساس لے کر ہم لوگ وہاں سے لوٹے ہیں اور تمام اہلِ وطن کو جو سیاست اور میڈیا کے حوالے سے عموماً ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہمیوں کا شکار رہتے ہیں یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ بلوچستان اور اُس کے لوگوں کی جوتصویر ہمیں دکھائی جاتی ہے یہ علاقہ اور اس کے لوگ عمومی طور پر اس کے مقابلے میں بہت مختلف، محبت اور عزت کرنے و الے اور کچھ سچ مچ کی حق تلفیوں کا شکار ہیں سو لازم ہے کہ ان کے جائز گِلے دُور کیے جائیں اوران کو وہی عزت اور مقام دیا جائے جو کوئی بھی پاکستانی اپنا حق سمجھتا ہے۔

تیکھی غزلوں کا شاعر-امجداسلام امجد

خدمت، برکت اور نذرانہئ نعت

خدمت، برکت اور نذرانہئ نعت

خدمت، برکت اور نذرانہئ نعت

کورونا کی تباہ کاریاں اپنی جگہ مگر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اس کی وجہ سے ہماری زندگیوں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حوالے سے بہت سی ایسی تبدیلیاں راہ پاگئی ہیں۔ جو اس وبا کے ختم ہونے کے بعد بھی ہمارے ساتھ چلتی رہیں گی اگر چہ اس سے قبل بھی کبھی کبھار رمضان کے مہینے میں چیریٹی اور خدمتِ خلق کے حوالے سے کچھ ادارے ٹیلی ویژن پر فنڈریزنگ کے پروگرام کیا کرتے تھے لیکن Zoomاور اس سے ملتی جلتی Apps کی وجہ سے اب یہ ایک معمول کی بات بن گئی ہے کہ آپ کہیں بھی ایک عارضی سا سٹوڈیو بنا کر دنیا کے کسی بھی حصے میں احباب سے براہ راست بات چیت کرسکتے ہیں مجھے یاد پڑتا ہے کوئی چھ برس قبل میں پہلی بار عزیزی ابرار الحق کے ”سہارا ٹرسٹ“ کی ٹیلی تھان میں شریک ہوا تھا۔ 

جو اُس وقت ایک بالکل نیا تجربہ تھا لیکن اب یہ ایک عام سی بات ہوگئی ہے ابھی کل رات ہی مجھے ”الخدمت“ کے UK سے متعلق ایک فنڈ ریزر میں شرکت کا موقع ملا اور اب17 اپریل کو اُن کے کینیڈا سے متعلق ایک ٹیلی تھان میں حاضری دینے کے بعد 20اپریل کو برادرم ڈاکٹر امجد ثاقب کے ادارے ”اخوّت“ کے ایک اسی نوع کے پروگرام میں شامل ہونا ہے۔

 ربِ کریم کے فضل اور رمضان کی برکت سے ہر پروگرام بہت کامیاب جارہا ہے اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانی زکوٰۃ اور صدقات کی مد میں دل کھول کر اعانت کرتے ہیں جن سے یہ ادارے وطنِ عزیز میں روزگار، آسان اور بلا سود قرضوں، تعلیم، صحت، صاف پانی کی فراہمی اور یتیم بچوں کے لیے ایسے معیاری نظام وضع کرتے ہیں کہ بے ساختہ ان کے لیے دل سے دُعا نکلتی ہے گزشتہ شب والے پروگرام میں جس کی نظامت عزیزی وصی شاہ نے کی میرے علاوہ مشہور مزاحیہ اداکار افتخار ٹھاکر، ماضی کے بے مثال لیگ سپنر مشتاق احمد، اوریا مقبول جان، خالد مسعود خان اور ”الخدمت“ کے ناظمِ اعلیٰ میاں عبدالشکورنے شرکت کی جبکہ نوجوان کرکٹر فخر زماں ویڈیو کال پر شریکِ محفل ہوئے یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ گزشتہ پروگرا م میں باکمال بالر سعید اجمل ہمارے ساتھ تھے ”الخدمت“ کے دوست یوں تو کئی شعبوں میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں مگریہ پروگرام یتیم بچوں کے لیے تعمیر اور قائم کردہ ”آغوش“ نامی سلسلے کے بارے میں تھا جس کے تحت اس وقت وطن کے طول و عرض میں انیس ادارے بیس ہزار سے زیادہ یتیم بچوں کی مکمل کفالت کررہے ہیں جہاں ان عمارات میں قیام پذیر بچوں کے لیے اعلیٰ تعلیم اور بہترین ماحول کا اہتمام کیا جاتاہے وہاں بہت سے بچوں کی کفالت اور نگہداشت اُن کے گھروں میں ایک باقاعدہ اور فول پروف سسٹم کے ذریعے کی جاتی ہے میاں عبدالشکور نے بتایا کہ اس کام کا آغاز2005ء کے تباہ کن زلزے میں یتیم ہونے والے بے سہارا بچوں کے لیے اٹک سے شروع کیا گیا تھا مجھ سمیت جن احباب نے کسی بھی ”آغوش“ سنٹر کا دورہ یا معائنہ کیا ہے وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ یہ ادارے اپنے کام کے حوالے سے بے مثال بھی ہیں اور شاند ار بھی اور یہی وجہ ہے کہ ”عدم اعتماد“ کے اس دور میں بھی لوگ اس تنظیم کی اہلیت، شفافیت اور کارکردگی پر بھرپور اعتمادکرتے ہیں میاں عبدالشکور نے بتایا کہ جن دوستوں نے اس منصوبے کا آغاز کیا تھا انہوں نے اس کی یہ اولین شرط اپنے اوپر خود عائد کی تھی کہ ہر بنیادی ممبر کم از کم اُتنے یتیم بچوں کی کفالت کا ذمہ لے لے جتنے اس کے اپنے بچے ہیں اور یہ کہ ان یتیم بچوں کی دیکھ بھال اور پرورش اُسی طرح سے کی جائے جیسے وہ اپنے بچوں کی کرتے ہیں۔ یوکے کے دوستوں کے لیے ایک بچے کی ایک سال کی مکمل کفالت کے لیے 360پاؤنڈ یعنی 30 پاؤنڈ ماہانہ رکھے گئے تھے اس ٹیلی تھان کے دوران صرف یو کے کے احباب نے تقریباً چھ سو بچوں کی کفالت کا ذمہ لیا جس کی کل رقم ساڑھے پانچ کروڑ پاکستانی روپوں کے برابر بنتی ہے اور اُمید کی جاتی ہے کہ رمضان کی برکات کے حوالے سے آئندہ دو عشروں میں ان کا ٹارگٹ یعنی ایک ہزار بچوں کی کفالت بھی مکمل ہوجائے گا جس محبت اور گرمجوشی سے پاکستان کے اندر اور بیرونِ وطن مقیم پاکستانی خیرات کے کاموں میں حصہ لیتے ہیں اُسے دیکھ کر ساری رات جاگنے کی تھکن کے بجائے اس کام سے متعلق تمام لوگ مزید تازہ دم ہوجاتے ہیں۔ ربِ کریم سے دعا ہے کہ وہ ناموسِ وطن کی حفاظت کے حوالے سے بھی ہمیں ایسے ہی اتحاد، ایمان اور تنظیم سے سرفراز فرمائے۔ آمین۔

بشریٰ فرخ ہمارے گزشتہ اکادمی ادبیات پاکستان کے دورہ چین میں بھی ہم سفر تھیں جس کا مقصد دونوں ملکوں میں ادب اورثقافت کے حوالے سے ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے اُن کی شاعری سے تو تعارف خاصا پرانا ہے مگر اب جو اُن کا نعتیہ کلام ایک ساتھ دیکھنے کا موقع ملا ہے تو اُن کی شخصیت کا یہ رُخ ایک بہت خوشگوار حیرت کی طرح سامنے آیا ہے کہ ان کی نعتیہ شاعری نہ صرف اس مقدّس رستے کے آداب پر پوری اُترتی ہے بلکہ اُن کا زیادہ زور روائتی مضامین کے بجائے اپنے اوپر گزرنے والی روحانی کیفیات او ر حضوری کے انبساط کی ایک ایسی فضا سے ہے جس میں قاری بھی رُوح تک ایک منفرد سی سرشاری میں بھیگ بھیگ جاتا ہے یہ چند جستہ جستہ نعتیہ اشعار بشریٰ فرخ کے اس روحانی کیف اور میرے تاثر کی ترجمانی کے طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔

مرے سرکاردردِ ناشنیدہ لے کے حاضر ہوں
دلِ صد چاک، چشمِ آبدیدہ لے کے حاضر ہوں
بڑے قیمتی جواہر مرے دل کے گھر سے نکلے
تیری یادمیں جوآنسو مری چشمِ تر سے نکلے
حضوری میں لبِ خاموش سے ہو گفتگو کیونکر
ادب اُنؐ کی محبت کے قرینے سے ہے وابستہ
سیرت و فہم و فراست علم و حکمت، معجزات
ہر ادا صلِ علیٰ کی آبروئے نعت ہے
سوچیں جو ایک عشق کی سجدہ گذاریاں
ہم نے ہزار راتوں کی نیندیں ہیں واریاں
ہے محبوب خدا کے عاشقوں کا قافلہ بشریٰ
رہیں گے چاند سورج اور ستارے ہم سفر اپنے
آشنائی عشق میں ڈھلنے لگی
اور پھر میں مصطفائی ہوگئی