آؤ پھر اِک خواب بُنیں -امجداسلام امجد

آؤ پھر اِک خواب بُنیں -امجداسلام امجد

آؤ پھر اِک خواب بُنیں

گزشتہ سوموار کو سقوطِ ڈھاکہ کے پسِ منظرمیں یہ لکھا ہوا ایک چار اقساط پر مشتمل میرا لکھا ہوا ڈرامہ ”خواب ٹُوٹ جاتے ہیں“ کے عنوان سے ٹیلی کاسٹ ہوا جس کی تحریر کا بنیادی مقصد اُس صورتِ حال کو درست انداز میں پیش کرنا تھا جو بالآخر بنگلہ دیش کے قیام پرمُنتج ہوئی لیکن اُس وقت سے لے کر اب نصف صدی گزر جانے کے بعد بھی اس حقیقت پر طرح طرح کے پردے پڑے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے بہت سی غلط باتیں اور اَعداد و شمار مناسب و ضاحت یا تردید نہ ہونے کی وجہ سے حقائق اور اعتقادات کے رُوپ اختیار کرگئے اور آج بھی ہم اور ہمارے بچے اس مسئلے کے ضمن میں بہت سی غلط فہمیوں کے شکار ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی پاکستان کے بیشتر سیاست دانوں اور حکومتوں نے اپنے بنگالی بھائیوں کے ساتھ تضحیک اور بے انصافی کا روّیہ روا رکھا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس کے باوجود 80% بنگالی ملک کوتوڑنے یا علیحدہ ہونے کے حق میں نہیں تھے لیکن نوجوان، جوشیلے اور جذباتی نوجوانوں اور بھارتی پروپیگنڈے اورکُھلی اِمداد نے ایسی صورتِ حال پیدا کر دی کہ اسلام آباد میں موجود سیاسی قیادت کی کمزوری اور کم فہمی کی وجہ سے جہاں فیصلوں میں تاخیر سے کام لیا گیا وہاں فوج کی طاقت سے امن قائم کرنے کا معاملہ بھی انتہائی غلط اور بے موقع تھا کہ فوجی ایکشن کی وجہ سے وہ 80% لوگ بھی جو اتحاد کے حامی اور قائل تھے ایک طرف ہو کر بیٹھ گئے اور بہاریوں کا قتلِ عام اور پاک فوج کی سپلائی بند کرنے والے ایک طرح سے ہیرو کی شکل اختیار کرگئے اور پھر وہ ہوگیا جس نے ملک کو دو لخت کرنے کے بعد بہت سارے غلط پروپیگنڈے کی وجہ سے دلوں میں بھی دیواریں کھڑی کردیں۔

اب جبکہ بنگالی، ہندو اور بہت سے گورے رائٹرز نے بہت سی غلطیوں اور غلط فہمیوں سے پردہ اُٹھا دیا ہے تو یہ ضروری تھا کہ یہ مختلف اور بہت حد تک صحیح معلومات اور مصدّقہ اَعداد و شمار ایک ایسی کہانی سنارہے تھے جو بہت سی مقبول روایات کی استدلال کے ساتھ نفی کر رہی تھی۔ میں نے اس ضمن میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے اُس وقت کے بنگالی وائس چانسلر ڈاکٹر سجا دحسین کی کتاب کی مدد سے اس ڈرامے ”خواب ٹوٹ جاتے ہیں“ کا سکرین پلے اس لئے اس کتاب سے اَخذ کیا کہ اس کا مصنف ایک صاحبِ علم بنگالی تھا اور جو واقعات اس کھیل میں دکھائے گئے ہیں اُن کی سند بھی اُن ہی سے لی گئی ہے اتفاق ایسا ہوا کہ کھیل کے آخری سین کے ساتھ ہی ذہن میں ایک نظم نے ظہور کرنا شروع کیا جس کا عنوان اس شکستِ خواب کے حوالے سے ”آؤ پھر اِک خواب بُنیں“ ٹھہرا کہ زندگی کہیں کہیں رکی ہوئی تو لگتی ہے پر رُکتی نہیں۔۔۔۔

آؤ پھر اک خواب بُنیں
جب جب پیچھے مُڑ کر دیکھیں
ایک ہی منظر حدِّ نظر تک
جیسے ساتھ چلا آتا ہے
تھکی تھکی اِک لَے میں جیسے
محفل محفل وقت مغّنی
ایک ہی بندش دہراتا ہے

ہر موسم کے کاندھوں پر ہے
جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی وہ
ایک ادھورے خواب کی چادر
جس میں کچھ کچھ چُھپ کر بیٹھی
سات دہائیاں
اپنی اپنی بربادی کے غم میں گُم ہیں
اُلجھے اُلجھے، رنگ برنگے دھاگے سے کچھ
ہر رستے میں بکھرے ہیں اور
آتے جاتے سب قدموں سے لپٹ رہے ہیں
کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے
اَرض و سما کے سارے مظہر، اس منظر میں سمٹ رہے ہیں

آج بھی میں نے حسب عادت
بیزاری سے مُڑ کر دیکھا
تو یہ سب کچھ اسی طرح تھا
اُلجھے اُلجھے رنگ برنگے سے کچھ دھاگے
حدِّ نظر تک یوں بکھرے تھے
جیسے یادیں اور اُمیّدیں جیسے سپنے آنکھوں میں
نیل گگن میں تارے جیسے!

یکدم اک بجلی سی چمکی
اک لمحے میں سارا منظر بدل گیا اور میں نے دیکھا
میں نے دیکھا اور یہ جانا وہ سب دھاگے
رفتہ رفتہ اِک اِک کرکے
اُسی اَدھورے خواب کی چادر سے نکلے تھے
جانے کب کب کیوں اور کیسے
اور اُسی اک جادو گر سے لمحے میں پھر
سات دہائیوں کی دُوری سے
خوشبو کا ملبو س پہن کر جاگی اک آواز
ہر اِک دل کے سوزِ درُوں کی ہمدم اور ہمراز
جس کو سُن کر کبھی ہُوا تھا خواب سفر آغاز!

جانے اِس آواز میں کیسا جادو ہے!
ایک انوکھی سی سرشاری
ایک لگن سی ایک تڑپ سی
ہر اک دل میں ہر سُو ہے

”آؤ پھر اس ٹکڑے ٹکڑے خواب کو مل کرجوڑیں ہم
جس رستے پر چلے ہوئے ہیں اُس رستے کو چھوڑیں ہم
دھاگہ دھاگہ یکجا کرکے
پھٹی ہوئی چادر کے ہم تم سارے چاک سیئیں
سر کو اُٹھا کر پاؤں جما کر باقی عمر جیئیں
جس کی لَے پر دل جُھومے تھے
پھر وہ گیت سنیں
منزل تک جو لے جاتی ہو
ایسی راہ چُنیں
آؤ پھر اِک خواب بُنیں
آؤ، پھر اِک خواب بُنیں“

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *