جن سے مل کر زندگی سے پیار ہوجائے وہ لوگ

جن سے مل کر زندگی سے پیار ہوجائے وہ لوگ

جن سے مل کر زندگی سے پیار ہوجائے وہ لوگ

ایک عمومی مشاہدہ ہے کہ وطنِ عزیز میں بیشتر لوگ ”حقوق“ کی بات کرتے ہوئے ”فرائض“ کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں امرِ واقہ یہی ہے کہ تالی ہمیشہ دو ہاتھوں سے بجتی ہے اور یہ کہ ایک ہاتھ سے صرف تھپڑ ہی مارا جاسکتا ہے جس سے فساد اور معاملے کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا ہے نیز یہ کہ اپنی دی یا لی ہوئی ذمہ د اری کو بطریق احسن ادا کیا جائے آئیڈیل صُورت تو یہی ہے کہ آپ کا پیشہ اور شوق یعنی Passion & Profession آپس میں ملتے جلتے ہوں تاکہ آپ کی وابستگی میں مضبوطی اور نتائج میں بہتری پیدا ہولیکن اگر کسی وجہ سے ایسا نہ ہو سکے تو پھر پیشے کو ہی شوق بنانے کی کوشش کرنی چاہیئے تاکہ آپ زندگی کو بہتر طور پر گزار سکیں اور معاشرہ بھی آپ سے شاکی نہ ہو۔


یہ تھا وہ مرکزی موضوع اور جذبات کو آسودہ کرنے والا ماحول جس میں گزشتہ ہفتے دو نہایت قیمتی اور ہر اعتبار سے کامیاب انسانوں اور دردِ دل رکھنے والے دوستوں سے ڈیڑھ دو گھنٹے کی ایک ا یسی ملاقات رہی جس نے رُوح پر لگے اور معاشرے میں پھیلے ہوئے بہت سے جالوں کو نہ صرف صاف کیا بلکہ بہت سی ذہنی اُلجھنوں کو بھی دُور اور کم کیا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ہماری بہت عزیز دوست دردانہ انصاری جو بی بی سی لندن کے ساتھ طویل اور شاندار رفاقت کے بعد اب ملکہ برطانیہ کی طرف سے برٹش نیوی کے اعزازی کمانڈر کے رُتبے پر فائز ہیں اور اس حوالے سے واحد ایشیائی پس منظر کی حامل خاتون بھی ہیں جبکہ اُن کے ہمراہ غیر متوقع طور پر ایک خوشگوار حیرت کے سے انداز میں برطانیہ میں پاکستان کے سابق سفیر اِبن عباس نے بھی زحمت فرمائی اُن کے تعارف میں یہ کہنا ہی کافی ہوگا کہ گزشتہ 40 برس میں مجھے مختلف ممالک میں کم و بیش اتنے ہی پاکستانی سفارت کاروں سے ملنے کا موقع ملا ہے اور اُن میں سے جو تین یا چار لوگ سب سے نمایاں اور متاثرکُن رہے اِبنِ عباس اُن میں سے ایک ہیں مشاعروں وغیرہ کے حوالے سے بیرون ملک ایک سو سے زیادہ بار جانے کا موقع ملا ہے ہر جگہ میزبان اپنی پاکستانی کمیونٹی کے لوگ ہی تھے لیکن سوائے ان متذکرہ بالا تین چار سفیر حضرات کے ہر ایمبیسی اور اس کے عملے کے بارے میں گوناگوں شکایات ہی سننے کو ملی ہیں برطانیہ اس حوالے سے بہت ہی مشکل سٹیشن ہے کہ یہاں ایک اندازے کے مطابق پاکستان سے باہر سب سے زیادہ پاکستانی آباد ہیں وہاں کے کم و بیش پندرہ اسفار کے دوران اِبنِ عباس واحد سفیر تھے جن کے بارے میں ہر شعبے، علاقے اور طبقے کے لوگ خوش اور معترف نظر آئے گفتگو کا دور چلا تو وہ اپنے عہدے کے تقاضوں کو نبھانے کے ساتھ ساتھ زندگی کے کم و بیش ہر موضوع پر اپنی کم گوئی کے باوجود حاوی نظر آئے وطنِ عزیز کی ترقی کی خواہش کے ساتھ ساتھ اُن کا ذہن صورتِ حال کی مسلسل اَبتری اور ہمارے قومی روّیوں کے بارے میں بہت صاف، پُرامید اور واضح تھا اتفاق سے اس ملاقات کے دوران بھی یہ موضوع کچھ دیر کے لئے چہرہ نما ہوا اور میں نے محسوس کیا کہ اب اُن کے Optimism یعنی رجائیت پسندی میں کمی اور فکر مندی میں پہلا سا توازن نہیں کہ انہوں نے بار بار اس مسئلے پر میری رائے کو جاننے کی کوشش کی انہوں نے بتایا کہ فارن سروس سے ریٹائرمنٹ کے بعد تین سال پبلک سروس کمیشن میں خدمات سرانجام دینے کے بعداب وہ لاہور ڈیفنس میں ہی رہائش پذیر ہیں حکومت کو چاہیئے کہ ایسا وسیع تجربہ اور شفاف کردار رکھنے و الے ان ہنر مند لوگوں کی خدمات سے فائدہ اُٹھائے اور ان کو ان کی مخصوص قابلیت کے مطابق کسی تھنک ٹینک میں شامل کرے کہ 74سال سے اس انتہائی اہم شعبے پرہم وہ توجہ نہیں دے سکے جو اس کا حق ہے۔

 
دردانہ انصاری سے پہلی ملاقات تیس برس قبل سنگِ میل پبلی کیشنز کے دفتر میں مرحوم نیاز صاحب کے روائتی لنچ پر ہوئی معلوم ہوا کہ وہ بی بی سی اُردو سروس سے متعلق ہیں اور اس ضمن میں کچھ پاکستانی ادیبوں سے انٹرویو ریکارڈ کرنے کے لئے آئی ہیں اُن کے بولنے اور بات کرنے کا انداز بہت خوبصورت تھا لیکن ا س سے بھی زیادہ متاثر کن بات یہ تھی کہ اتنا عرصہ انگلستان میں رہنے کے باوجود اُن کی بول چال کا انداز خالص مشرقی تھا بعد ازاں لندن کے مختلف اسفار کے دوران اُن سے سرسری ملاقاتیں رہیں اور ہر بار میں نے انہیں پہلی ملاقات کی طرح خوش اور اپنے کام سے مخلص اور پُرجوش پایا۔ کچھ برس قبل لندن میں ڈاکٹر جاوید شیخ کے گھر پر منعقدہ ایک محفل میں اُن سے تفصیلی ملاقات ہوئی تو اُن کے کچھ ایسے جوہر کُھلے جو نئے بھی تھے اور بہت دلچسپ بھی، پتہ چلا کہ اچھا بولنے اور لکھنے کے ساتھ ساتھ وہ بہت اچھا گاتی بھی ہیں اور انہیں کئی شاعروں کا کلام اَز بر ہے لیکن سب سے زیادہ چونکا نے والی بات نیوی کے کمانڈر کا وہ اعزازی عہدہ تھا جو ملکہ برطانیہ کی طرف سے دیگر اعزازت کے ساتھ انہیں دیا گیا اُن کی فوجی وردی میں ملبوس تصویر اور نیوی میں اُن کے کارنامے جان کر یہ یقین کرنا بہت مشکل ہوجاتا تھا کہ یہ وہی دردانہ انصاری ہیں جنہیں ہم برسوں سے جانتے ہیں۔ ایک نرم و نازک سی مشرقی آداب اور روایات میں ڈھلی ہوئی لڑکی جس کا Passion شعرو ادب اور صدا کاری ہو وہ کیسے اس بالکل مختلف اور مشکل Profession کے تقاضوں کو اس قدر کامیابی سے نبھا سکتی ہے یہ بات اب تک پوری طرح سے میری سمجھ میں نہیں آئی۔


دردانہ نے فون پر بتایا کہ وہ تین دن کے مختصر دورے پر پاکستان آرہی ہیں جس کا بنیادی مقصد غالباً اُن کی والدہ کی سفر میں معاونت تھی کہ آج کل کے حالات، سفری پابندیوں اور طویل فلائٹس کی وجہ سے کسی بزرگ خاتون کا اکیلے سفر کرنا اور بھی مشکل ہوگیا ہے اور اُن کے بقول ا س کے بعد انہیں صرف لاہور میں مجھ سے اور اسلام آباد میں اپنی مصورّہ بیٹی سے ملنا تھا اِبنِ عباس کی ہمراہی میں اُن سے ہونے والی ملاقات کے ایجنڈے میں برادرم ڈاکٹر جاوید شیخ کی یادداشتوں پر مبنی کتاب کے بارے میں ایک ویڈیو پیغام بھی ریکارڈ کرانا تھا جسے اس کتاب کی لندن میں ہونے و الی تقریبِ رونمائی میں ا ستعمال کیا جاسکے۔


سردیوں کی بہت خوشگوار دھوپ میں ہونے و الی فی البدیہہ گفتگو کا حاصل ہم تینوں کی یہ Conviction تھی کہ تمام تر خرابیوں کے باوجود وطنِ عزیز اس کا معاشرہ اور لوگ اُس خوش حال پاکستان کو تعمیرکرنے میں بالآخر کامیاب ہوں گے جس کی بنیاد قائد کے پیغام”اتحاد، ایمان اور تنظیم“ پر ہوگی۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *