انقلاب اور اے غمِ دل کیا کروں۔امجداسلام امجد

انقلاب اور اے غمِ دل کیا کروں۔امجداسلام امجد

انقلاب اور اے غمِ دل کیا کروں

مجاز کی نظم ”انقلاب“ پہلی نظر میں روسی انقلاب کے اس عمومی عکس کی آئینہ دار لگتی ہے جس میں اس زمانے کے سارے جدید اور بالخصوص تعلیم یافتہ شاعر اپنا حصہ ڈالنا فرض منصبی جانتے تھے لیکن معلومات کی کمی اور جذبات کی بلند آہنگی کے باعث عام طور پر ایسی نظموں میں عجیب سی یکسانیت اورAntispation کی فضا پیدا ہو جاتی تھی جس کا سب سے زیادہ نقصان ان کی تاثیر کو پہنچتا تھا۔مجاز کا شمار ان معدودے چند شعراء میں ہوتا ہے جنھوں نے اس موضوع کو کورس کے ساتھ ساتھ انفرادی سطح پر بھی بہت عمدہ انداز میں گایا اور بہت سے ایسے پہلووں پر بھی بات کی جس سے عام طور پر شعراء بوجوہ چشم پوشی کر جاتے تھے۔

یہ رنگ اگرچہ اس کی شاعری میں بہت زیادہ دیر روشن اور تازہ نہیں رہا لیکن اس کی نظم”انقلاب“کی حد تک یہ یقینا توجہ طلب ہے:

پھینک دے اے دوست اب بھی پھینک دے اپنا رباب
آنے ہی والا ہے کوئی دم میں شورِ انقلاب
بھوک کے مارے ہوئے انسانوں کی فریادوں کے ساتھ
فاقہ مستوں کے جلو میں خانہ بربادوں کے ساتھ
ختم ہو جائے گا یہ سرمایہ داری کا نظام
رنگ لانے کو ہے مزدوروں کا جوشِ انتقام
اس طرح لے گا زمانہ جنگ کا خونیں سبق
آسماں پر خاک ہو گی، فرش پر رنگ شفق
اور اس رنگ شفق میں باہزاراں آب و تاب
جگمگائے گا وطن کی حریت کا آفتاب

اسی طرح اس کی ایک بہت مشہور نظم”نوجوان خاتون سے“ جو عام طور پر اپنے آخری شعر:

ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا

کے حوالے سے جانی جاتی ہے، ایک بالکل مختلف مجاز سے ملواتی ہے۔ اس میں اس”کامریڈ شپ“ کی جھلک لہریں لیتی دکھائی دیتی ہے جس کا زیادہ تر ذکر آپ کو روس اور چین کے انقلابات کی مہم کے دوران ہی دکھائی یا سنائی دیتا ہے لیکن اس نظم میں حوصلہ افزائی، تعریف، مشورے اور صورتِ حال پر غور کی جس جہت کی طرف مجاز نے اشارہ کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔بظاہر ہر شعر کے آخر میں ”اچھا تھا“کے حوالے سے ایک بہتر اور زیادہ جامع مشورہ دینے کی کوشش کی گئی ہے مگر اس کی اصل خوب صورتی ہم سفری، دوستی اور ایک مقصدیت کی وہ ڈوری ہے جس نے وقتی طور پر ہی سہیGenderیعنی صنفی حوالے کی اس تقسیم کی بھرپور نفی کی ہے جو اس زمانے میں رائج ہونے کے ساتھ ساتھ بہت حد تک مقبول بھی تھا۔


اب یہ ایک بہت عجیب اور حیران کن بات ہے کہ مجاز کی جس تخلیق نے آج تک اپنی مقبولیت کو قائم رکھا ہے، اس کا براہ راست تعلق اب تک مجاز کے بارے میں لکھی گئی کسی بھی بات سے تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں مجاز کے زمانہ طالب علمی میں غیرملکی ادب پاروں، اس دور کی مشہور اور نمایندہ عام نظموں اور تحریکوں کے ساتھ تعارف اور وابستگی کے راستے کھلنا شروع ہو چکے تھے جسکے نتیجے میں عالمی ادب کے بہت سے شاہکاروں کا کلی یا جزوی اور لفظی یا تخلیقی ترجمہ کرنے کا کلچر اپنی جگہ بنا چکا تھا۔براہ راست تراجم یا کسی موڈ، خیال یا موضوع کو اصل سے بہت حد تک ہٹا کر اپنے انداز میں اس سے استفادہ بھی عام او مقبول ہو رہا تھا جس کا بہت واضح اثر ہمیں علامہ اقبال کے ابتدائی کلام میں بھی نظر آتا ہے۔ کسی شعری خیال یا مضمون کا چربہ، براہ راست ترجمہ یا اس سے متاثر ہو کر اصل سے ملتی جلتی بات کہنے کا رجحان بھی کھل کر سامنے آ رہا تھا لیکن ان میں لائن لگانا یا اصل کے ساتھ اس کے تعلق کی باقاعدگی سے وضاحت کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا کہ بقول شخصے اگر نقل اپنے مزاج، انداز، کشش، گہرائی اور تاثر کی وجہ سے اصل سے آگے نکل جائے تو اسے نقل نہیں بلکہ”اصل“ کہنا چاہیے۔اس ساری بحث کا ماحصل مجاز کی مشہور نظم”آوارہ“ سے منسوب اور متعلق وہ بحث ہے جس میں اس کے متن اور الحاقات کی وجہ سے اسے خالص تخلیق کے بجائے ترجمے یا اس سے ملتی جلتی کسی چیز کا نام دیا گیا۔


غور سے دیکھا جائے تو اس نظم کی ایک ایک سطر امیج اور حوالے میں انیسویں صدی کے یورپ میں فرد کے لیے گھٹتی ہوئی گنجائش، سرمایہ داری کے فروغ، اقدار کی مقدار کے مقابلے میں پسپائی اور فرد آشوب کا نوحہ ایک مخصوص نوع کی بے معنویت میں گم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔اب اس میں ایک غلام اور پسماندہ معاشرے کے ایک خواب دیکھنے والے فرد کو بھی جمع کر لیجیے تو یہ نظم ادب سے زیادہ خود زندگی کا حوالہ بن جاتی ہے اور ظاہر ہے بے معنویت کوئی ایسا سکہ نہیں جس پر کسی کی مہر لگائی جا سکے۔ اپنے آپ سے، اپنے معاشرے اور تاریخ سے اور اپنے اردگرد گزرتے ہوئے وقت سے بے تعلقی کا یہ گلہ اور اس کے ردعمل میں پیدا ہونے والی مایوسی اور بے چینی انفرادی سطح پر کیسے ایک زندہ حقیقت بن سکتی ہے۔”آوارہ“ میں مجاز یہ بھی بتانے اور سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے۔

شہر کی رات اور میں ناشاد و ناکارہ پھروں
جگمگاتی جاگتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں
غیر کی بستی ہے کب تک دربدر مارا پھروں
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں؟
رات ہنس ہنس کر یہ کہتی ہے کہ مے خانے میں چل
پھر کسی شہنازِ لالہ رخ کے کاشانے میں چل
یہ نہیں ممکن تو پھر اے دوست ویرانے میں چل
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں؟
راستے میں رک کے دم لے لوں مری عادت نہیں
لوٹ کر واپس چلا جاوں مری فطرت نہیں
اور کوئی ہم نوا مل جائے یہ قسمت نہیں
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں؟

اور پھر آخری بند میں شاعر کا یہ کہنا کہ”تخت سلطانی کیا، میں سارا قصر سلطان پھونک دوں“ اس فرسٹریشن کا عکاس بن جاتاہے جو کسی پر بھی کسی بھی وقت آ سکتی ہے لیکن یہ لکھتے وقت مجاز کو شاید معلوم نہیں تھا کہ وہ اپنی ہی زندگی کا ایک فلیش فارورڈ لکھ رہا ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *