اُردو سائنس بورڈ ۔ ساٹھ سال
پچھلے دنوں اُردو سائنس بورڈ کی ساٹھو یں سالگرہ کی تقریب میں شرکت کا موقع ملا تو یادوں، مسائل اور خوابوں کا ایک جہان سا کھلتا چلا گیا کہ ان ساٹھ برسوں میں تین برس مجھے بھی اس کی رفاقت کا موقع مل چکا ہے تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس موجودہ نام یعنی اردو سائنس بورڑ کے ساتھ یہ گزشتہ تقریباً چالس برس سے ہے کہ پہلے اس کا نام اُردو مرکز ی بورڈ ہوا کرتا تھا لیکن جب اکادمی ادبیات اور مقتدرہ قومی زبان سمیت کچھ اور ادارے بھی اپنے اپنے حوالے سے زبان و ادب کے ضمن میں کام کرنے لگے تو اس ادارے کا کام سائنسی علوم اور کتابوں کو اُردو زبان میں منتقل کرنا قرار پایا ایک محتاط اندازے کے مطابق ان ساٹھ میں سے تقریباً 30برس اشفاق احمد مرحوم اس کے سربراہ رہے اور ایمانداری کی بات یہ ہے کہ جو کام انہوں نے اکیلے کیا وہ باقی کے تمام لوگ مل کربھی نہیں کرسکے علمی حوالے سے ہٹ کر جو ایک بہت بڑا اور تقریباً ناقابلِ، یقین کام انہوں نے کیا وہ ایک بہت اچھی جگہ پر اس کے دفتر کی خوب صورت عمارت کی تعمیر ہے کہ دو کنال پر محیط یہ عمارت تمام کی تمام اس دفتر کی اپنی کمائی یعنی سائنسی کتابوں کی فروخت سے کی گئی ہے جہاں تک اس کے علمی کارناموں کا تعلق ہے اس دوران میں ایسی بہت سی اہم کتابیں انسائیکلو پیڈیاز اور لغات شائع کئے جو اپنی مثال آپ ہونے کے ساتھ ساتھ بار بار چھپتے بھی رہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ ادارہ عام سرکاری اداروں کی نسبت افرادی قوت کے حوالے سے بھی بہت چھوٹا ہے۔
کچھ عرصہ قبل پتہ چلا کہ سرکار نے ایک دوسرے سے ملتے جلتے اداروں کو آپس میں ضم کرکے ان کی تعداد کو کم او ر کام کو بہتر بنانے کے لئے ایک پالیسی بنائی ہے جس میں کراچی کے اُردو لغت بورڈ اور لاہور کے اس اُردو سائنس بورڈ کو اسلام آباد کے مرکزی ادارے مقتدرہ قومی زبان، جسے اب غالباً ادارہ فروغ اُردو کا نام دیا گیا ہے کے ماتحت کرکے ان کا انتظام اس کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ اتفاق سے اس ادارے کے سربراہ ڈاکٹر رؤف پاریکھ اور سیکنڈ ان کمانڈ ڈاکٹر راشد حمید ہمارے احباب میں سے ہیں اُن سے اس موضوع پر بات ہوئی تو اُن کا کہنا یہی تھا کہ دوہ بھی باقی سب کی طرح سرکار کے فیصلوں کے تابع ہیں اور ان کی ذاتی رائے جو بھی ہے انہیں وہی کرنا ہے جو کیا جائے گا اس انتہائی غلط اور منفی فیصلے سے براہ راست مجروح ہونے والے احباب یعنی اُردو سائنس بورڈ کے کچھ سینئر افسران سے بات ہوئی تو اُن کا جواب بھی کم و بیش یہی تھا کہ حکم حاکم مرگ مفاجات اس پر مرحوم محبوب خزاں بہت یاد آئے جنہوں نے کہا تھا کہ
خزاں یوں آدمی اچھے بہت ہیں
ملازم پیشہ ہیں ڈرتے بہت ہیں
جلاس سے بورڈ کے دو ریٹائرڈ ساتھیوں ڈاکٹر جمیل اور زبیر وحید بٹ نے اپنے خطاب میں بہت اچھی اور اندر کی باتیں کیں اُن کے علاوہ مہمان مقررین اور بورڈ کی مجلسِ مشاورت کے ممبران ڈاکٹر طارق حیات اور ڈاکٹر اجمل رحیم کے علاوہ برادرِ عزیز ڈاکٹر ضیا الحسن اور میں نے بھی خطاب کیا اور ہم سب کا مجموعی پیغام یہی تھا کہ بلاشبہ انگریزی زبان اچھی طرح سے جاننا سائنسی علوم کو سمجھنے کے لئے کم از کم برصغیر کی حد تک بہت ضروری بلکہ لازمی ہے مگرجہاں تک پرائمری اور مڈل کلاسز کا تعلق ہے کسی conceptکی وضاحت کے لئے مادری یا قومی زبان ہی سب سے بہتر ذریعہ ہوسکتی ہے اس لئے سائنسی اصطلاحات کے تراجم کے بجائے اُنہیں اُن کی اصل صورت میں رکھنا بہتر ہوگا کہ اس سے آگے کی جماعتوں میں جانے والے بچے بہت سی پریشانیوں سے محفوظ ہوکر آگے بڑھ سکیں گے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی بہت سی اصطلاحات کے لئے سائنسی سوچ، مزاج اور ماحول کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہماری زبانوں میں مناسب الفاظ موجود نہیں ہیں اور یہ کہ اس کام کو چھوٹی جماعتوں میں یہیں تک محدود رہنا چاہیئے اور انگریزی کو ذریعہ تعلیم کے بجائے شروع میں صرف ایک زبان کے طور پر پڑھانا اور سکھانا چاہیئے۔
اس ادارے کی مطبوعات کی تعدادا ب تقریباً ایک ہزار ہونے والی ہے اور جیسا میں نے بتایا کہ اس کی کئی کتابیں مثلاً زرعی انسائیکلوپیڈیا دس جلدوں پر محیط سائنسی انسائیکلو پیڈیا، شہرہ آفاق کتاب ”سو فی کی دنیا“ کے درجنوں کے حساب سے ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں اور بنیادی سائنسی تصورات کی تفہیم کے لئے بھی اُردو زبان میں ان علوم اور کتابوں کے آسان اور عمدہ تراجم کو جاری رکھنا بہت ضرور ی ہے۔
پاکستان میں جن چند خواتین نے بہت غیرمعمولی، نازک اور اہم شعبوں میں شاندار کام کیا ہے میں ذاتی طور پر اُن کی فہرست میں مسرت مصباح کو بہت اُوپردیکھتا ہوں کہ عمومی طور پر تو انہیں Depilexکی معرفت ایک بیوٹیشن کے حوالے سے جانا جاتا ہے یا کچھ لوگ انہیں ان کی میڈیا پر موجودگی کے حوالے سے جانتے ہیں مگر دیکھا جائے تو ان کا اصل اور بہت قیمتی کام Smile Againنامی ادارے کا قیام ہے کہ جس کے حوالے سے وہ جلائی جانے والی بدنصیب لڑکیوں کی داد رسی کرتی ہیں ان کا علاج کروا کر انہیں دوبارہ زندگی میں واپس لاتی ہیں انہیں مختلف ہنر سکھا کر اپنے قدموں پر کھڑا کرتی اور انہیں خود اپنے ادارے میں ملازمتیں دیتی ہیں تاکہ وہ پھر سے مسکراسکیں۔مجھے جب بھی اُن سے ملنے یا اُن کے ادارے کی کسی تقریب میں شامل ہونے کا موقع ملتا ہے تو دل سے نہ صرف اُن کے لئے دعا نکلتی ہے بلکہ اُن تمام انسان دوست روحوں کو سلام پیش کرنے کو جی چاہتا ہے جو دکھی لوگوں کے لئے اپنا عیش و آرام خوشدلی سے تج کر اُن کی بحالی اور بہتری کے لئے کام کرتے ہیں اور تاریخ یہی بتاتی ہے کہ جس معاشرے میں ایدھی صاحب (بڑے پیمانے پر) اور مسرت مصباح(چھوٹے پیمانے پر) جیسے لوگ افراط میں ہوجائیں وہاں ربِ کریم کی برکتوں میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔
Leave a Comment