بُشریٰ رحمن، رُوحی کنجاہی اور ممتاز شیخ

بُشریٰ رحمن، رُوحی کنجاہی اور ممتاز شیخ

بُشریٰ رحمن، رُوحی کنجاہی اور ممتاز شیخ

میرے نزدیک اِن تینوں ادب اور ادب دوست احباب کی خدمات اور شخصیات کے بارے میں کم از کم ایک ایک مکمل کالم ہونا چاہیئے تھا کہ انہوں نے اپنے اپنے انداز میں معاصر ادب پر گہرے اور مثبت اثرات چھوڑے ہیں اور تینوں کی یادوں کے ساتھ دوستی کا ایک خاصا طویل زمانہ بھی وابستہ ہے۔

بشریٰ رحمن کی شخصیت کئی حوالوں سے جانی اور پہچانی جاتی ہے اور یوں اُن کے مدّاحین کا دائرہ بھی بہت بڑا تھا اور ہے۔ بہاولپور کے ایک مذہبی اور روائت پسند خاندان اور وہاں کے مخصوص ماحول میں خواتین کے لئے اضافی پابندیوں کے درمیان انہوں نے 77 برس پہلے آنکھ کھولی اور اگرچہ انہوں نے اپنے روشن خیال والد کی مدد اور اجازت سے صحافت میں ایم اے کی ڈگری بھی لے لی مگر عملی طور پر اس تعلیم کا استعمال یا خواتین کے لئے کہیں ملازمت کرنا (بجزچند ایم بی بی ایس پاس لیڈی ڈاکٹرز کے) ایک امرِ محال سمجھا جاتا تھا بشریٰ رحمن نے شادی سے قبل کوئی 200 کے قریب افسانے بشریٰ رشید کے نام سے لکھے اور چھپوائے تھے مگر شادی کے بعد اپنے شوہر عبدالرحمن میاں جو زمانہ دیدہ اور محبت والے انسان تھے اور مالی آسودگی کے ساتھ ساتھ ایک غیرمعمولی حِس مزاح کے بھی مالک تھے ان کی مدد، رہنمائی اور شہ پر بشریٰ نے اپنے اندر موجود تخلیقی خاتون کے مختلف جوہر دکھا نا شروع کیا اور چند ہی برسوں میں ایک اہم ناول اور افسانہ نگار، پبلشر، گفتگو کے فن کی ماہر، صوفیانہ روایات کی پاسدار اور سیاستدان کے درجوں پر فائز ہوگئیں، پنجاب اسمبلی میں ان کی تقریروں، صوفیانہ حوالوں اورفی البدیہہ اشعار کو ایک مخصوص اور دلچسپ انداز میں پڑھنے پر ”بُلبلِ پنجاب“ کا خطاب بھی دیا گیا۔

وہ بے حد مہمان نواز تھیں او ر ادب سے تعلق رکھنے والے تقریباً تمام نمائندہ اور نامور غیر ملکی لکھاریوں کو وہ بہت محبت اور عزت سے اپنے گھر کھانے پر بلاتیں اور شہر کے معتبر اور ہر مزاج کے نمائندہ لکھاریوں کو بھی اس محفل میں مدعو کرتیں اور یوں اُن کا گھراَدبی تقریبات کی وجہ سے بھی ہمیشہ اچھی خبروں میں رہتا تھا مجھے بھی کئی بار اُن کا مہمان بننے کا موقع ملا وہ بے حد خوش گفتار خوتون تھیں اور اُن کے بولنے کا انداز بھی بڑا دلچسپ اور جداگانہ تھا کہ گفتگو کے دوران وقفوں کا استعمال اور لہجے کا اُتار چڑھاؤ ہر اعتبار سے بہت منفرد اور دلچسپ تھا ناول نگاری میں وہ اے آرخاتون اور رضیہ بٹ والے گروہ سے متعلق تھیں طرزِ تحریر بہت عمدہ اور رواں دواں بیانیئے کی وجہ سے الگ سے پہچانا جاتا تھا وہ خوامخواہ کے فلسفیانہ گتھیوں سے پرہیز کے ساتھ لسّانی تجربات اور مغرب کے زیرِ اثر پھلنے پھولنے والے ہیئتی انداز سے الگ رہتے ہوئے معاشرے اور بالخصوص خواتین کے مسائل پر زیادہ توجہ دیتی تھیں پارٹ ٹائم شاعری بھی کرتی تھیں مگر عام طور پر اسے اپنے قریبی حلقے تک ہی محدود رکھتی تھی۔ ابتدائی زندگی کے مذہبی اور صوفیانہ رجحانات کو قدرے جدید انداز میں پیش کرنا بھی اُنہیں خوب آتا تھا لکھتی ہیں

مرے پاؤں میں پائل ہے
دل نہ دُکھا ماہیا
دل پہلے ہی گھائل ہے

اُن کے کئی ناولوں پر ٹی وی سیریل بھی بنے اور حکومت کی طرف سے انہیں 2007ٗ میں ستارہ امتیاز بھی ملا۔


رُوحی کنجاہی ایک صاحبِ اسلوب شاعر اور بہت اچھے دوست اور انسان تھے تھوڑا اُونچا سنتے تھے ایک دفعہ مرحوم خالد احمد نے جملہ کسا کہ رُوحی ویسے تو تمہیں کچھ سنائی نہیں دیتا مگر مطلب کی بات فوراً تمہاری سمجھ میں آجاتی ہے رُوحی نے مسکرا کر کہا وہ تو میں بولے جانے سے پہلے سُن لیتاہوں یہ اور بات ہے کہ تم نے کبھی اس بات کا موقع نہیں دیا ”رُوحی زیادہ تر سہل ممتنع میں کہتے تھے اور اُن کی غزل کے بیشتر مصرعے عام بول چال اور مکالمے کے انداز میں سننے میں بھلے اور سوچنے میں گہرے لگتے تھے اور اُن کا یہ مصرعہ تو ایسا مقبول ہوا کہ نہ صرف اس پر بہت سے کالم لکھے گئے بلکہ اسے ڈراموں میں بھی استعمال کیا گیا۔ مصرعہ کچھ یوں ہے کہ

”حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی“

آپ اُردو کا کوئی بھی زبردست، مقبول اور باکمال شعر ذہن میں لایئے اور اُس کے بعد اُس کے ساتھ یہ مصرعہ جوڑ دیجئے وہ ایک دم Upside down ہوجائے گا مثلاً

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
”حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی“

لیکن آج اُس کے جنازے میں شرکت کے بعد پھر اندازہ ہو رہا ہے کہ کبھی کبھی یہ فرق پُر بھی ہوجاتا ہے۔


ممتازشیخ چند برس قبل ایک ضخیم اور شاندار ادبی پرچے”لوح“ کے حوالے سے ایک دھماکے کے ساتھ ادبی دنیا میں وارد ہوا کہ گمنام تو وہ اس سے پہلے بھی نہیں تھا کہ گورنمنٹ کالج کا سابق طالب علم ہونے کے حوالے سے ”راوین“ کمیونٹی کے لئے اُس نے بہت عمدہ اور لگ کر کام کیا تھا ایک عام سے ادب دوست انسان کے حوالے سے جانا جانے والا شخص اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے ادبی دنیا میں ایک ایسا نمایا ں مقام حاصل کرلے گا کہ اب اُس کے جاری کردہ جریدے”لوح“ کو کم وبیش تمام معاصرادبی زبانوں پر ایک فوقیت حاصل ہوگئی تھی کتاب سے مبینہ دُوری کے اس زوال آمادہ دور میں یہ رسالہ روشنی کے ایک جھماکے کی طرح سامنے آیا اور پھر ہم نے دیکھا کہ ممتاز شیخ اس حوالے سے ادبی دنیا کا ایک معتبر اور پسندیدہ نام بن گیا برادرم محبوب ظفر نے بتایا کہ کووڈ کے دنوں میں اس کا خاصا وسیع کاروبار اس قدر متاثر ہوا کہ ا س کو اپنی فیکٹریاں بند اور مکان تک بیچنا پڑا مگر اس نے ادبی برادری کو اس بات کی ہوا تک نہیں لگنے دی اور ”لوح“ مسلسل چھپتا رہا مجھے یقین ہے کہ راوینز کے ساتھ ساتھ ”لوح“ کے پرستا ر بھی اُسے ہمیشہ یاد رکھیں گے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *