جدید نسائی تصورات-امجداسلام امجد

جدید نسائی تصورات

اصولاً یہ کالم مجھے دو تین ماہ قبل اُس وقت لکھنا چاہیئے تھا جب میری بیٹی روشین عاقب نے اپنا ایم فل کا مقالہ مطبوعہ شکل میں مجھے دے کر اس خوب صورت اور دل کو چُھونے والے احساس سے روشن کیا تھا کہ اب خیر سے میری اگلی نسل بھی صاحبِ کتاب ہوگئی ہے تاخیر کی وجہ یہ ہوئی کہ مجھے اندیشہ تھا کہ کہیں میری تحسین کو شفقتِ پدری کے خانے میں ڈال کر اس کتاب کی خوبیوں کو نظر انداز نہ کر دیا جائے لیکن اب اس کتاب کو دو بار پڑھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ میرے اس گمان کی سزا روشین کو نہیں ملنی چاہیئے کہ کہیں اسے صرف بیٹی کی حوصلہ افزائی پر محمول نہ کیا جائے۔

اس مختصر سی وضاحتی تمہید کے بعد اب صرف کتاب اور صاحبہئ کتاب کی محنت اور فکری گہرائی پر بات ہوگی اس کتاب جدید نسائی تصورات کا ضمنی ٹائٹل ”فروغ فرخ ذاد اور کشور ناہید کا فکری تقابل“ ہے اور اس کا مرکزی نکتہ ان دونوں شاعرات کے فکری تقامل کے ساتھ ساتھ تانیثیت feminismکے بنیادی مباحث سے رشتہ آرا ہے کہ متعلقہ دونوں شاعرات بالترتیب فارسی اور اُردو میں اس تانیثیت کے چیمپئن اور آغاز کنندہ کی حیثیت رکھتی ہیں جو گزشتہ صدی میں سیمون ڈی بوار، سلویا پلاتھ اور اینجلا ڈیوس کی معرفت ادب میں داخل ہوا تھا۔ کتاب کے پہلے باب میں ”تقابلی مطالعہ کیا ہے“ کے عنوان سے روشین نے وارک یونیورسٹی کی پروفیسر سوزن جینٹ کے حوالے سے اس کی وضاحت کچھ یوں کی ہے۔

”تقابلی ادب مختلف تقاضوں کے متن کا مطالعہ ہے ایک کثیر العلمی مضمون ہے جس کا تعلق زمان اور مکان کے بُعد میں پیدا ہونے والے ادب کے درمیان رشتوں کے نقوش سے متعلق ہے“ لُغت میں اس کی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے کہ

 
”دو چیزوں کے درمیان موازنہ خصوصاً یہ معلوم کرنے کے لئے کہ ان میں کیا خصوصیات مماثل ہیں او رکیا غیر مماثل“


اسی طرح feminismیعنی تانیثیت کی تعریف انسائیکلو پیڈیا برٹینکا کے مطابق کچھ اس طرح سے کی گئی ہے”فیمنزم ایک سماجی تحریک ہے جو عورتوں کے مساوی حقوق کیلئے جدوجہد کرتی ہے“ اس کی مزید وضاحت کچھ اس طرح سے کی گئی ہے کہ ”فیمنزم اس احساس کا کہ معاشرے میں عورت مظلوم ہے اور اس کا ااستحصال کیا جاتا ہے اور اس صورتِحال کوبدلنے کی شعوری کوشش کا نام ہے“ مختلف اوقات میں عورتوں کے حقوق اور تانیثیت کے بارے میں جو اہم موڑ سامنے آئے ان میں فرانسیسی ادیبہ سیمون ڈی بوار کی کتاب Second Sexکو بہت اہمیت دی جاتی ہے کہ اس کے بعد مغرب میں عورتوں کے حقوق کے نام پر آزادی اور بعض صورتوں میں مادر پدر آزادی کے رجحانات کو فروغ ملا جس کی بازگشت بیسیویں صدی میں تیسری دنیا کے معاشروں میں بھی سنائی دینے لگی اسی تبدیلی کو روشین عاقب نے جدید نسائی تصورات کانام دے کرایران اور پاکستان کی صورت حال کے حوالے سے فروغ فرخ ذاد اور کشور ناہید کے مابین فکری تقابل کو موضوعِ سُخن بنایا ہے کہ دونوں کا تعلق روائتی تہذیبی تصورات اور خواتین کی اپنی پہچان کروانے کے لئے جدوجہد سے ہے عام طور پر ان کی وضاحت میں فکری،سیاسی اور سماجی مسائل کو نفسیاتی اور جنسی مسائل کے ساتھ خلط ملط کرکے ایک ہی سانس میں بیان کردیا جاتا ہے جس کی وجہ سے تفہیم کے ضمن میں بہت سی غلط فہمیاں راہ پاجاتی ہیں اور لکھنے والیوں کے کسی ایک رجحان کو ان کی پوری شخصیت اور فکر پر اس طرح سے پھیلا دیا جاتا ہے کہ نہ تو انہیں ٹھیک طرح سے سمجھا جاسکتا ہے اور نہ ہی ان کا صحیح معنوں میں تقابلی مطالعہ کیا جاسکتا ہے روشین عاقب نے بہت عقل مندی سے کام لیتے ہوئے ان کو علیحدہ علیحدہ ابواب میں بیان کیا ہے آیئے اب اس بات کو سمجھنے کیلئے ان دونوں کی ایک ایک نظم دیکھتے ہیں فروغ کہتی ہے

کاش میں ایک خاموش ندی کے کنارے پر
ایک پراسرار پود ے کی خوشبو ہوتی
کہ جب تو وہاں سے گزرتا
تو تجھ سے لپٹ جاتی
کاش میں چرواہے کی بانسری کی طرح
تیرے دیوانے دل کے نغمے گاتی
اور ہوا کے ہودے پر سوتی ہوئی
تیری ڈیوڑھی کے آگے سے گزر جاتی

کاش میں تیری کھڑکی سے صبح کے وقت
بہار کے سورج کی کرنوں کی طرح
لرزتے ریشمی پردوں سے چھن جاتی
اورتیری آنکھوں کا رنگ دیکھتی

شکستہ دلوں پر غم کا عطر چھڑکتا میرے سامنے
جوانی کے زمستاں کی تلخ جوانی ہوتی
اور میرے پیچھے، عشقِ ناگہاں کی تابناک گرمیاں
اور میرا سینہ درد و اندوہ کی بدگمانی کی ایک منزل ہوتا
کاش میں پت جھڑ کا موسم ہوتی

جہاں تک کشور ناہید کی شاعری میں تبدیلی، انقلاب اور تانیثیت کا تعلق ہے روشین نے مثالیں دے کر بتایا ہے کہ کس طرح وہ رُومان کے دھندلکے سے نکل کر حقیقت اور زندگی کے بنتے بگڑتے ہوئے رنگوں کی طرف آئی اور پھر اب انہی سے متعلق مختلف کیفیات کو بیان کرتی چلی جارہی ہے اس کی نظم تقریر نمبر27اس کی ایک بہت عمدہ مثال ہے۔

میری آواز میرے شہر کی آواز ہے
میری آواز میری نسل کی آواز ہے
میری آواز کی بازگشت نسل در نسل چلے گی
میں پیمبر نہیں ہوں
میں تو بس آج کو آنکھیں کھول کر دیکھ رہی ہوں
کہیں تقریروں کے نمبر اب از بر ہوگئے ہیں
تقریر نمبر 10غریبوں کو جگانے کی آواز ہے
تقریر نمبر15عورتوں میں شعور پیدا کرنے کی آواز ہے
تقریر نمبر27ادیبوں دانش وروں کو مشورے دینے کی آواز ہے
آواز آواز آواز
غُل کسے کہتے ہیں

344صفحات پر مشتمل اس کتاب میں فروغ فرخ ذاد اور کشور ناہید کی ذاتی زندگی، رجحانات، مزاج، عورت کے حقوق کی نمائندگی اور مختلف نظموں کی مثالوں سے مصنفہ نے ایک ایسی فضا بنا دی ہے کہ آپ دونوں کا تقابل کرکے بآسانی اپنی رائے مرتب کرسکتے ہیں۔خود اس کتاب کے آخرمیں روشین نے جن نتائج کی طرف توجہ دلائی ہے وہ کچھ اس طرح سے ہیں۔


”فروغ فرخ ذاد اور کشور ناہید اپنے عہد کی نہائت توانا آواز ہیں اُن کی تخلیقی سوچ نے شاعری کو ایک نئے رنگ اور آہنگ سے آشنا کیا ہے وہ ایک ترقی پسند انہ سوچ رکھتی ہیں اور اُن کی نظر عہدِ حاضر کے تمام مسائل پر بہت گہری اور عمیق ہے دونوں شاعرات نسائیت کو اپنا جو ہر گردا نتی ہیں اپنے اپنے ملکوں میں جاری ترقی پسندانہ تحریکوں نے اُن کے مطالعے اور مشاہدے پر گہرا اثر کیا۔فروغ نے اپنے جذبات، احساسات کا اظہار انتہائی بے باک اور پُر ہیجان لہجے میں کیا ہے ا ور راستے میں موجود ہر رکاوٹ کو ڈنکے کی چوٹ پر عبور کیا ہے جبکہ کشور ناہید کے ہاں خیالات اور خواہشات کے اظہار میں روائت اور اقدار کا پاس نظر آتا ہے جو اسے فروغ جیسا بے باک لہجہ اپنانے سے روک دیتا ہے“


میری ذاتی رائے میں یہ کتاب دونوں متعلقہ شاعرات کے ساتھ ساتھ اُن کے عہد اور تانیثیت کے بدلتے ہوئے رجحانات کو سمجھنے کے لئے ایک بہت عمدہ گائیڈ کا کام کرسکتی ہے کہ اس کی نثر کی روانی نے اس میں ایک ایسی مطالعیت یعنی Readabilityکا بھی اضافہ کردیا ہے جو عام طور پر تنقیدی اور تحقیقی تحریروں میں کم کم ہی نظر آتی ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *