حسن ناصر سے ارشد شریف تک
محفوظ انسانی تاریخ میں غالباً سقراط ہی وہ پہلا شخص ہے جس نے اپنے افکار سے رُوگردانی قبول نہیں کی اور بڑھ کر موت کو گلے لگا لیا دیکھا جائے تو تب سے اب تک دنیا کے شائد ہر خطے اور ہر قوم میں ایسے لوگ پید اہوتے رہے ہیں جنہوں نے اس روائت کی پاسداری کرتے ہوئے اسے آگے بڑھایا اور اپنی مثال سے ثابت کیا کہ وہ ایک لمحے کو مر کر ہمیشہ کے لیئے زندہ ہوگئے ہیں۔
یہ فہرست اتنی لمبی ہے کہ یہ کالم اس کے اندراج کا متحمل نہیں ہوسکتا اس لیئے میں اس میں سے صرف دو ایسے بہادر انسانوں کا ذکر کروں گا جن کا تعلق براہ راست ہم سب کے وطنِ عزیز سے ہے اور جن کی وجہ سے انسانی کردار کی عظمت کا وہ نقش صُورت پذیر ہوا جس میں اپنے عقیدے نظریئے اور مشن سے کمٹ منٹ کے دو عظیم منظر ہم سب نے دیکھے، میری مراد ساٹھ سال قبل لاہور کے شاہی قلعے میں بے پناہ تشدد کی وجہ سے جان دینے والے حسن ناصر سے ہے جن کی انقلابی جدوجہد اور انسانی حقوق کی پاسداری کے جنون نے نہ صرف ایک تاریخ رقم کی بلکہ رُوسی انقلاب سے دنیا بھر میں پیدا ہونے والی انقلابی تحریکوں کا ایک روشن تر استعارہ بھی بن گئے جبکہ حال ہی میں حکومتی تشدد کے باعث وقتی طور پر ملک چھوڑنے اور پھر پُراسرار حالات میں افریقہ کے ملک کینیا میں جسمانی تشدد کے بعد شہید کئے جانے والے ارشد شریف ایک ایسے صحافی اور ٹی وی اینکر تھے جنہوں نے اپنے منصب اور فکر سے وفاداری نبھاتے ہوئے جان دینا تو قبول کرلیا مگر ظلم سے سمجھوتہ نہیں کیا اور اپنی شہادت سے ایک ایسے عوامی ردّعمل کو کھل کر احتجاج کی تحریک دی جو گوناگوں وجوہات کے باعث برسوں سے غفلت کی نیند میں تھا۔
حسن ناصر کی زندگی کو تو قرۃ العین حید ر جیسی بے مثال مصنفہ نے اپنے ایک شاندار ناولٹ ”ہاؤسنگ سوسائٹی“ میں ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیا آج کے لکھنے والوں میں مستنصر حسین تارڑ کے سوا مجھے کوئی اور اس کا اہل نظر نہیں آتا جو ارشد شریف کی اس شاندار قربانی کو زبان دے سکے امید ہے کہ وہ اس طرف توجہ دے گا۔
اب اس تصویر کا ایک دوسرا رُخ بھی ہے جو بوجوہ بہت تکلیف دہ ہے کہ دنیا ایسے لوگوں کی موت پر عموماً ماتم تو بہت کرتی ہے لیکن بہت جلد انہیں بھول کر پھر سے اپنے ہنگاموں میں گم ہوجاتی ہے اور آہستہ آہستہ یہ لوگ صرف الماریوں میں بند کتابوں تک محدود ہوجاتے ہیں البتہ ایک اچھی بات یہ دیکھنے میں آتی ہے کہ اب کئی چینل ان غیر معمولی افراد کی پیدائش یا موت کے حوالے سے نہ صرف لوگوں کو آگاہ کرتے ہیں بلکہ کبھی کبھی اُن کے لیئے خصوصی پروگرام بھی ترتیب دیتے ہیں میں نے ان خواب گر دیدہ وروں پر ایک نظم لکھی ہے مگر اُس سے پہلے اُس عمومی بے حسی اور فراموشی کا تذکرہ ضروری ہے جو میرے نزدیک کسی لمحہئ فکریہ سے کم نہیں۔
وہ جو اپنی جاں سے گزر گئے
یہ جو بجھتے ہی چلے جاتے ہیں
قریئہ یاد کے طاقوں میں چراغ
کون روکے گاا نہیں!
یہ جو اس بڑھتی ہوئی رات سے لڑنے کے لیئے
جان سے اپنی گزر جاتے ہیں
کون دیکھے گا انہیں!
کس طرح وحشی ہواؤں سے انہیں بچنا ہے
کسی طرح ان کو بچایا جائے
کس طرح ان کی شہادت کا سبق
جاگتے درد کی تحویل میں لایا جائے!
ان کو دو چار گھڑی روکے دکھانے کے سوا
کچھ بھی تو پاس نہیں
ان کی آنکھوں میں جو روشن تھا ہمارا کل تھا
یہ بھی احساس نہیں
کام تو کام ہے اس دہرکے ہنگاموں میں
نام بھی اُن کے ہمیں یاد نہیں رہتے ہیں
اُن کے رستے پہ نہیں چلتے کبھی ا یک قدم
بے جہت شام و سحر بیتے چلے جاتے ہیں
اس بھرے شہر میں رسوائی کا خاموشی سے
زہر بھی پیتے چلے جاتے ہیں
ان کا پیغام تھا عزّت کے لیئے مرجانا
اور ہم جیتے چلے جاتے ہیں
ممکن ہے اس صورتِ حال کے بیان میں کچھ مبالغہ در آیا ہو مگر سخن فہم احباب اچھی طرح جانتے ہیں کہ کسی جذباتی تاثر کے بیان میں دل اور قلم دونوں قابو سے باہر ہوجاتے ہیں اور اب آخر میں اپنے ضمیر کی حفاظت کے لئے دنیا بھرمیں جان دینے والے ان شہیدوں اور مشاہدے اور تحقیق سے زندگی اور کائنات کے اصولوں کو دریافت کرنے والے تابغوں کے لئے ایک نظم
کہاں گئے وہ خواب گر
کہاں گئے وہ خواب گر
جو درد سے بھری ہوئی شبوں میں جاگ جاگ کر
تراشتے تھے خواہشوں کے خوش نما درخت سے
اک ایسا گھرکہ جو کہیں
پہ تھا بھی اور نہیں بھی تھا
کہ جن کے فن کی روشنی
دل و نظر میں پھیل کر کچھ ایسے جاوداں ہوئی
زماں مکاں سے ماورا
اک اور جہان میں کچھ اس طرح رواں ہوئی
کہ بے نشان زندگی کچھ اور بے نشاں ہوئی
کہاں گئے وہ دیدہ ور
کہ جن کی چشمِ دل کشا میں علم سے بہار تھی
وہ عرش کا فراز ہو یا خاک کی ہو پستیاں
یقین ہی یقین تھا اور کہیں گماں نہ تھا
اُن سے کچھ نہاں نہ تھا
جہاں پہ جو بھی راز تھا وہ اُس کو فاش کرگئے
چھپے ہوئے اصول جن سے چل رہی تھی زندگی
انہیں تلاش کرگئے
فضاں کہ اب وہ خواب گر
بنارہے ہیں گھر مگر
کہیں بھی ان میں اُن کے خواب دور دور تک نہیں
فغاں کہ اب وہ دیدہ وَر
یُوں حُبِّ زر میں کھوگئے
کہ اب وہ سب ہیں کھوچکے وہ علمِ جس میں شک نہیں
Leave a Comment