خیال اور ایمان افروز
آج کل سوشل میڈیا کے اچھے اور بُرے پہلوؤں پر بہت کھل کر اور کم وبیش ہر پلیٹ فارم پر بات ہو رہی ہے جو ایک اعتبار سے بہت مستحسن اور ضروری قدم ہے کہ اس کی وجہ سے ایک بار پھر برسوں پرانی ایک بات ازسرِ نو زندہ ہوگئی ہے کہ کیا دنیا میں مادر پدر آزادی نام کی کوئی چیز ہے یا ہوسکتی ہے جس کا جواب یہی آتا ہے کہ ہر آزادی کی کوئی نہ کوئی حد ضرور ہوتی ہے اور اس حد کا احترام کئے بغیر آزادی کا کوئی عملی تصور ممکن نہیں کہ بقول پیرزادہ قاسم
؎ ہجوم سے تو کبھی کارواں بنا ہی نہیں
ہاں یہ بات ضرور ہے کہ اس آزادی کی حدود کا تعین کسی مخصوص گروہ یا طاقتور طبقے کے ہاتھ میں نہیں ہونا چاہیئے بلکہ اسے عوامی رائے کا تابع اور مظہر ہونا چاہیئے اور اسے کسی بھی صورت میں اخلاقیات لوگوں کی پرائیوٹ زندگی اور اُ ن کے بنیادی حقوق سے متصادم نہیں ہونا چاہیئے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ٹیکنالوجی کا استعمال جس قدر تیزی سے بڑھا ہے اس کے ضمن میں شعور اور ذمہ داری کا احساس تقریباً نہ ہونے کی تصویر بن کر رہ گیا ہے اور بات ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ اور خوش مزاجی سے چلتی ہوئی پھکڑپن، عریانیت، بے ہودگی کے پرچار اور بے گناہ لوگوں کی زندگیوں اور عزت سے بے دریغ کھیلنے تک آگئی ہے جو یقینا ہر لحاظ سے قابلِ مذمت اور گرفت ہے لیکن ایمانداری کی بات یہی ہے کہ یہ اِس تصویر کا غالب حصہ تو ہے مگر مکمل تصویر میں بہت سے رنگ شوخ، خوبصورت اور دل پذیر بھی ہیں یعنی اس کو استعمال کرنے والوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو حدود سے تجاوز کرنے کے بجائے ان کے اندر رہ کر زندگی کی خوب صورتیوں کو اُجاگر کرتے ہیں اور اُن کی بعض پوسٹیں ادب عالیہ، اخلاق، دانش، تفکر، روحانیات اور خوش طبعی سے اس طرح آراستہ ہوتی ہیں کہ آپ بیک وقت سوچنے سمجھنے، مسکرانے اور سننے پر مجبور ہوجاتے ہیں مشتے از خروارے کیطور پرچند باتیں جن سے میں متاثر بھی ہوا ہوں اور محظوظ بھی۔ آپ سے اس لئے شیئر کررہا ہوں کہ دانش ایک تحفہ اور مسکراہٹ ایک صدقہ ہے اور ان کی معرفت ہم کچھ دیر کے لئے ہی سہی ایک ا چھی ا ور نارمل فضا میں سانس لے سکتے ہیں۔
”آپ راتوں رات اپنی منزل نہیں بدل سکتے مگر راتوں رات سمت ضرور تبدیل کی جاسکتی ہے“
”یہ نفس بدیقین ہے جس نے نمرور کو بھی تباہ کیا یہ ایک پھاڑ کھانے والا بھیڑیا ہے، مانا کہ نفس بہت طاقتور ہے لیکن اگر آپ نے اس پر قابو نہ کیا تو یہ اورطاقتور ہوجائے گایادرکھیں پھریہ پہلے اپنی طاقت استعمال کرے گا اور آپ کو عزت کے مقام سے نیچے گرائے گا اور پھر ایک دن پوری طاقت سے یہ آپ کو دوزخ کی گہرائیوں میں پھینک دے گا۔ نفس کے شر پر ندامت پشیمانی سے آنسوؤں کا جاری نہ ہونا دل کی سختی کی وجہ سے ہے اور دل کی سختی گناہوں کی کثرت کی وجہ سے ہے۔۔۔ دنیا کی محبت ہر گناہ کی جڑ ہے اور گناہ کی آب پاری نفس کرتا ہے ا س لئے اپنے نفس پر قابو رکھیں“
”جنگ ایک ایسی جگہ ہے جہاں جوان آدمی جو ایک دوسرے کو نہیں جانتے اور ایک دوسرے سے نفرت بھی نہیں کرتے ایک دوسرے کو ماردیتے ہیں اُن بوڑھے لوگوں کے کہنے پر جو ایک دوسرے کو جانتے ہیں آپس میں نفرت کرتے ہیں لیکن ایک د وسرے کو قتل نہیں کرتے“
”حجّام کی دوکان پر لکھا ہوا پڑھا۔۔۔ہم دل کا بوجھ تو نہیں لیکن سر کا بوجھ ضرور ہلکا کرسکتے ہیں“
”لائٹ کی دوکان والے نے بورڈ کے نیچے لکھوایا۔۔۔آپ کے دماغ کی بتّی بھلے ہی جلے یا نہ جلے مگر ہمارا بلب ضرور جلے گا“
”چائے والے نے اپنے کاؤنٹر پر لکھوایا۔۔۔میں بھلے ہی عام ہوں مگر چائے سپیشل بناتا ہوں“
”ایک ریسٹورنٹ والے نے سب سے الگ فقرہ لکھوایا۔۔۔یہاں گھر جیسا کھانا نہیں ملتا آپ اطمینان سے تشریف لائیں“۔
”الیکٹرونک دوکان پر سلوگن پڑھا ”اگر آپ کا کوئی فین (FAN) نہیں تویہاں سے لے جائیں“
”گول گپّے کے ٹھیلے پر یوں لکھا تھا۔۔۔گول گپّے کھانے کے لئے دل بڑا ہو نہ ہو منہ بڑا رکھیں اور پورا کھولیں“۔
”پھل والے کے یہاں تو غضب کا فقرہ لکھا دیکھا۔۔۔آپ تو بس صبر کریں پھل ہم دیں گے“
”گھڑیوں کی دوکان پر ایک زبردست فقرہ دیکھا۔۔۔بھاگتے ہوئے وقت کو ہم اپنے بس میں رکھیں، چاہے دیوار پر، ٹانگیں یا ہاتھ پر باندھیں“
”ایک نجومی نے اپنے بورڈ پر کچھ یوں لکھوایا۔۔۔آیئے صرف ایک سو روپے میں اپنی زندگی کے آنے والے ایپی سوڈ دیکھیئے“
”بالوں کی ایک کمپنی نے تو اپنے پروڈکٹ پر لکھ دیا۔۔۔۔ہم بھی بال بال بچاتے ہیں“
”اور ایک دندان ساز کی دوکان پر لکھا ہوا جملہ”دانت کوئی بھی توڑے جوڑ ہم دیں گے“
”چٹائی بیچنے والے نے کہا”900روپے میں خریدیں ساری عمر بیٹھ کر کھائیں“
”ایک دوکان میں لکھا دیکھا۔۔۔صبح 9 بجے سے شام 6بجے تک۔۔۔ ہم اپنی اوقات میں رہتے ہیں“
”پانی اور نماز ایک جیسے ہیں، پانی محتاج نہیں پیسے الوں کا اور نماز محتاج نہیں پڑھنے والوں کی۔ دونوں کے لئے پیاس ضروری ہے جسم کی پیاس کے لئے پانی اور رُوح کی پیاس کے لئے نماز، وہ رُوح مردہ ہے جس میں نماز کی طلب نہ ہو۔ نماز مومنین کو اللہ کی طرف سے شب معراج کو ملنے والا بہترین تحفہ ہے جو اللہ سے سب بندوں کا براہِ راست رابطہ قائم کرنے کا ذریعہ ہے۔۔۔۔اہلِ تصوف کے نزدیک عبادت کے وقت ذاتِ الٰہی کی دید میں گُم ہونے کا نام نماز ہے۔ اللہ ہمیں سجدوں کی سچی لذّت عطا فرمائے“
ہیں نا خیال اور ایمان افروز باتیں۔
Leave a Comment