دنیا کا سب سے آزمودہ نسخہ
دورِ قدیم کے شفا خانے ہوں یا نئی طرز کے جدید ہسپتال دونوں کے قیام کا اصل مقصد بیمار، مریض اور زخمی لوگوں کا علاج اور تمام تر مطلوبہ طبی سہولیات کے ساتھ اُن کی خاص دیکھ بھال ہوتا ہے کچھ عرصہ پہلے تک زیادہ تر ہسپتال جنرل ہی ہوتے تھے یعنی ایک ہی جگہ ہر طرح کی بیماری کا علاج کیا جاتا تھا ذہنی امراض کے ہسپتالوں سے قطع نظر ہر جگہ یہی نظام اور سلسلہ رائج تھا ساٹھ ستر برس قبل جب ٹی بی کی بیماری عام ہوئی تو اس کے لئے بوجوہ خصوصی ہسپتال یا سینی ٹوریم قائم کئے گئے جبکہ گزشتہ چند برسوں میں کینسر کے علاوہ مختلف جسمانی اعضا مثلاً گُردوں، دل اور آنکھوں کے امراض کے لئے بھی خصوصی ہسپتال بنانے کا رواج پڑا لیکن دیکھا جائے تو اب بھی زیادہ تر ہسپتال جنرل ہسپتالوں کے اندازمیں ہی بنائے جاتے ہیں ان کی بھی آگے دو قسمیں ہیں یعنی وہ سرکاری ہسپتال جو صوبائی یا مرکزی حکومت کے محکمہ صحت کی طرف سے تقریباً ہر شہر اور قصبے میں موجود ہوتے ہیں اور دوسرے پرائیوٹ اداروں،ٹرسٹ اور تنظیموں کی طرف سے بنائے اور چلائئے جانے والے وہ ہسپتال جو مخصوص علاقوں میں قائم کئے جاتے ہیں جیسے کراچی کا انڈس ہسپتال یا SIUT اور لاہور کا شیخ زائد اور ڈاکٹر قدیر خان ہسپتال۔ ان کے علاوہ کچھ ہسپتال جو مخصوص بیماریوں کے علاج کے لئے قائم کئے جاتے ہیں وہ تعداد کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر آتے ہیں جیسے کینسر کے علاج کے لئے شوکت خانم یا ڈاکٹر شہریار کا کینسر ہسپتال، گائنی کے لئے لاہور کا فاطمہ ثریا، ایبٹ آباد کا کڈنی سنٹر یا ابرار الحق کی تنظیم سہاراٹرسٹ کا نارووال ہسپتال کہ جن کی طرز پر پورے ملک میں بے شمار ہسپتال کام کر رہے ہیں جن کے نام گنوانا یہاں ممکن نہیں البتہ اس سارے انسان دوست اور خوب صورت منظر نامے کے حُسن کو اُن پرائیوٹ ہسپتالوں نے بہت حد تک گہنا دیا ہے جن کے قیام کا بنیادی یا عملی مقصد بے تحاشا ناجائز منافع اندوزی اور لوٹ مار ہے ہسپتالوں کے عمومی جائز اخراجات اور ڈاکٹروں اور عملے کی تنخواہوں کے لئے ایک مناسب حد تک مریضوں سے فیس کے نام پر رقم وصول کرنا انہیں قائم اور برسرِ عمل رکھنے کے لئے تو سمجھ میں آتا ہے مگر جب اس کی آڑمیں لوگوں کی مجبوری سے کھیل کر اُن پر ایسے اضافی اخراجات کا بوجھ ڈالنا جس کا مقصد صرف مالکان کی تجوریوں کو بھرنا ہو کسی بھی طرح پسند یدہ قرار نہیں دیئے جاسکتے کہ خالص کاروباری مفادات کے پیش نظر قائم کردہ ہسپتال انسانیت کے ماتھے پر کسی کلنک کے ٹیکے سے کم نہیں ایسے ہسپتال عام طور پر امیر آبادیوں میں اس لئے قائم کئے جاتے ہیں کہ بادی النظر میں وہاں کے لوگ ان بھاری اخراجات کو افورڈ کرسکتے ہیں جو اپنی جگہ پر ایک ناجائز اور جنریلائزڈ آئیڈیا ہے کہ اول تو ایسا ہے نہیں اور اگر ہو بھی تو کم از کم صحت کے حوالے سے کسی پر بھی اس قسم کا جگا ٹیکس نہیں لگانا چاہیئے۔
چند برس قبل میں نے مشہور فیشن ڈیزائنر محمود بھٹی کی ستائش میں ایک پورا کالم لکھا تھا کہ مجھے سیلف میڈ لوگ ہمیشہ سے بہت اچھے لگتے ہیں اور محمود بھٹی کی خود اعتمادی اور انتہائی سخت جدوجہد کے بعد حاصل ہونے و الی کامیابی نے مجھے بہت متاثر کیا تھا اُس وقت تک ڈیفنس لاہور کا نیشنل ہستپال یا تو بنا نہیں تھا یا یہ بات میرے علم میں نہیں تھی کہ وہ بھی اس کا مالک یا یکے از مالکان ہے گزشتہ چند برسوں میں جب بھی کسی ایمرجنسی کے حوالے سے مجھے خود وہاں جانا پڑا یا کسی دوست نے اپنی یا اپنے کسی عزیز کے وہاں ایڈمٹ ہو کر علاج کے بے ہنگم اور بھاری اخراجات کی رُوداد سنائی تو سُن کر بہت افسوس ہوا کہ یہ لوگ جو مسیحا کہلاتے ہیں لوگوں کی تکلیف کو کم کرنے کے بجائے اُلٹا اس میں اضافہ کررہے ہیں اورانہیں متعلقہ مریض بطور انسان کم اور بطور ایک اسامی کے زیادہ نظر آتا ہے دو دن قبل میری بہو میز پر رکھے ایک نوکیلے شیشے سے ٹکر ا کر اپنی ٹانگ زخمی کر بیٹھی ایمرجنسی والوں نے کہا کہ ٹانکے لگیں گے مگر اس کے لئے سر جن کو بلانا ہوگا اور وہ اسے ایک سرجری کیس کے حوالے سے دیکھے گا۔ قصہ مختصر سرجن صاحب نے فرمایا کہ پانچ ٹانکے لگیں گے اور پچیس ہزار خرچہ آئے گا زخم کی جگہ اور نوعیت کے اعتبار سے یہ ایک معمولی سا کام تھا میرے بیٹے علی ذی شان نے فون پر ایک دوست سے مشورہ کیا اور ڈیفنس میں ہی ایک اور بہت اچھے ہسپتال سے یہ ٹانکے پندرہ سو میں لگ گئے رقم کے اتنے بڑے فرق سے زیادہ مجھے کسی کی مجبوری سے فائدہ اُٹھانے کی اس سنگدلانہ اور تاجرانہ روش نے زیادہ پریشان اور آزردہ کیا ممکن ہے کہ اس بات کا پتہ محمود بھٹی کو نہ ہو لیکن اگر یہ سب کچھ اُس کی مرضی، اجازت اور علم میں ہو رہا ہے تو میں اُس کے بارے میں اپنے لکھے ہوئے الفاط واپس لیتا ہوں اگرچہ اس طرح کے اور بھی بہت سے ہسپتال اس طرح کی قبیح کاروائیوں میں مصروف ہیں اور یہ نام محض ایک مثال کے طور پر درمیان میں آگیا ہے کہ مقصد مقام سے زیادہ روپے کی نشاندہی ہے مجھے ڈاکٹر عبدالباری کے انڈس ہستپال محترم ڈاکٹر ادیب رضوی کے SIUT کے علاوہ بھی کئی ایسے ہسپتالوں کو قریب اور اندر سے دیکھنے کا موقع ملا ہے جو واقعی دُکھی انسانیت کی دن رات اور شاندار خدمت کر رہے ہیں اور جہاں مریض کے بجائے اُس کے مرض کو دیکھا جاتاہے جس طرح کی طبی سہولیات وطنِ عزیز میں موجود اور میسّر ہیں اُن کے پیش نظر پرائیوٹ ہسپتالوں کی موجودگی بلاشبہ بہت اہم اور ضروری ہے بشرطیکہ ان کے مالکان اور انتظامیہ سے ایک عام بزنس کی طرح نہ چلائیں اور اپنی خدمات کا معاوضہ طلب کرتے وقت اگر انسانیت نہیں تو خوفِ خدا کو ہی سامنے دیکھ لیا کریں۔
اسی طرح بعض سپیشلسٹ ڈاکٹرز اور فارما سوٹیکل کمپنیوں سے بھی درخواست ہے کہ وہ اپنی اداؤں پر غور فرمائیں اور اپنے کاروباروں کو کرنسی نوٹوں کے ساتھ مریضوں کی دعاؤں سے بھی جوڑ کر دیکھا کریں اس ملک کی پچاس فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے اور کم و بیش چالیس فیصد سفید پوش ہے جو اُن کے پانچ منٹ کی فیس پندرہ سو سے تین ہزار تک ادا کرنا آسانی سے افورڈ نہیں کرسکتی اسی طرح جس دوائی کی اصل لاگت چند روپے ہو اُسے بیس بیس گنا منافع پر بیچنا ناجائز ہی نہیں افسوسناک بھی ہے۔ ہسپتال وہ جگہ ہے جہاں سیاسی قیدیوں کے علاوہ اور کوئی بھی خوشی سے نہیں جاتا۔ اسے خلقِ خدا کی صحت کے لئے آسان اور منافع بخش بنایئے آپ دیکھیں گے کہ رب کریم آپ کے لئے آسانیوں کے دروازے کھولتا ہی چلا جائے گا۔
Leave a Comment