دوڑ پیچھے کی طرف
اتفاق سے گزشتہ ایک برس میں جب بھی میں نے طنزو مزاح کے حوالے سے کوئی کالم لکھا مجھے ناصر چانڈنا صاحب کا پیغام کسی نہ کسی حوالے سے ضرور ملا کہ مجھے اُن کے والد مرحوم ”مسٹر دہلوی“ کا ذکر بھی کرنا چاہیئے تھا جو اکبر الٰہ آبادی کے بعد خالص طنز کے بہت بڑے علم بردار ہیں اب یہ اتفاق کی بات ہے کہ میں نے مسٹر دہلوی کا نام اور حوالہ تو اچھی طرح سے سُن رکھا تھا مگر کسی نامعلوم وجہ سے اُن کے کلام اور دیگر تحریروں تک میری رسائی نہ ہونے کے برابر تھی میرے اس اعتراف کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک دن ڈاک سے مجھے اُن کی چھ سات کتابیں ایک ساتھ ملیں جو اُن کے برخوردار نے بھجوائی تھیں۔
ابھی میں اُن کو پڑھنے کا ارادہ ہی کر رہا تھا کہ کورونا شروع ہوگیا اور بیشتر کام اِسی کے اِردگرد گھومنے لگے دو تین روز قبل پھر ویسا ہی ایک پیکٹ موصول ہوا جس میں مسٹر دہلوی کی دس کتابیں ایک طنزیہ اور شکائتی مسکراہٹ کے ساتھ میری طرف دیکھ رہی تھیں میں نے پہلی کتاب کھولی جس کا عنوان ”مکالماتِ سقراط“ انوکھا اور دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ غیر متوقع بھی تھا کہ اس میں مسٹر دہلوی کے علمِ معاشیات کے حوالے سے دلچسپ تجربات، خیالات اور مطالعہ اُن کے اپنے ہی بقول ایک بہت ”قابلِ پڑھ“ انداز میں یکجا ہوگئے ہیں اوربلاشبہ ایک علیحدہ اور مکمل کالم کے مقتاضی ہیں کہ اس میں درج علمِ معاشیات کے ارتقاء، تاریخ اور تضادات آج شائد اپنے زمانہ تصنیف سے بھی زیادہ بامعنی اور کارگر ہیں لیکن چونکہ شعرو ادب میں اُن کا حوالہ ایک طنز نگار کا ہے چنانچہ مناسب لگا کہ پہلے اسی پر بات کرلی جائے۔
1972ء میں اُن کا شعری مجموعہ ”عطرِ فتنہ“ کے نام سے منّصۂ شہود پر آیا عنوان کے بعد جس دوسری بات نے سب سے پہلے چونکایا وہ اس ایڈیشن کی تعدادِ اشاعت تھی اگرچہ یہ کتاب بہت عام سے انداز میں مرتّب اور شائع کی گئی ہے مگر یہ احساس کہ اس کی پانچ ہزار کاپیاں طبع ہوئیں ایک حسین یاد کی طرح لگتی ہے کہ اب عام طور پر اس تعداد کا آخری نقطہ غائب ہوتا ہے تیسری اہم بات اس کے طنز کا اندااز، زبان اور تیزی تھے کہ آج کل طنزو مزاح کے نام پر پیش کی جانے والی بیشتر تحریریں سوائے پھکڑ بازی، توہین، الزام تراشی اور گالم گلوچ کے کم ہی کوئی ڈھنگ کی بات کرتی نظر آتی ہیں یہ اور بات ہے کہ پچاس برس پہلے کے ہی زیادہ تر موضوع آج بھی معمولی فرق کے ساتھ دہرائے جارہے ہیں مسٹر دہلوی کے طرزِ تحریر، دردِ دل اور لہجے کی کاٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر وہ ضیاء الحق کے مارشل لا، افغان جہاد اور سیاسی کھلبلی سے بھرپور بیسیوں صدی کی آخری دہائی بھی دیکھ پاتے تو یقینا اُن کا نام بھی ضمیر جعفری، انور مسعود اور دلاور نگار کی صف میں شامل ہوتا۔ میں نے کوشش کی ہے کہ ”عطرِ فتنہ“ سے موضوعات کے تنوع کی رعائت سے کچھ قطعات اور نظموں کے اشعار بطور نمونہ چُن سکوں کہ کالم کی تنگی اس سے زیادہ کی متحمل نہیں ہوسکتی تھی۔
بچوں کے ساتھ جنسی درندگی کے واقعات آج کل عام ہیں مگریہ رُوداد نئیہرگز نہیں ہے نظم ”خبیث“ کا یہ بند دیکھیئے
اک پیر جی کو ہوگئی چھ سال کی سزا
بچی کو اک دکھایا تھا قبلہ نے کچھ ہُنر
ایسا قبیح فعل کرے کوئی آدمی
طیش اُس پہ جو بھی آوے وہ کم ہے اُسی قدر
اُس جُرم کے لحاظ سے ہے نرم یہ سزا
بہتر یہ تھا کہ کھینچتے ظالم کو دَار پر
اسی طرح ایوب خان کے بارشل لا، بُوفے ڈنر، بیویاں، شوہر نامہ، بُور کے لڈو اور دلیری اور ہوش مندی وغیرہ، طویل اور مختصر نظمیں،ہونٹوں پر ہنسی اور ذہن میں سوالات جگاتی ہیں سیاسی لیڈر، نظامِ حکومت اور حاکموں کی نالائقی پر بھی وہ کُھل کر تنقید کرتے ہیں یہ طنز کتنا مشکل لیکن کس قدر کارآمد ہے اس کے بارے میں وہ اپنے پیشِ لفظ میں لکھتے ہیں۔
”طنز کی پیدائش اور ارتقاء کے لئے زندگی میں عدم اطمینان لازم ہے بلکہ یوں سمجھنا چاہیئے کہ سیاسی میدان میں جتنا زیادہ جبر ہوگا سماجی میدان میں جتنی زیادہ ناہمواری جنم لے گی اور معاشی میدان میں افراط و تفریط کے باعث جتنی زیادہ افراتفری پھیلے گی طنز نگاری کا اُتنا ہی زیادہ پھیلنا پُھولنا ممکن ہے“
اپنی بات کی وضاحت کے لئے وہ امریکی قلم کار ایڈون سی ومپل کا جو قول دہراتے ہیں اُسی پر اس بات کوختم کرتے ہیں۔
”انسان اُس شئے کی نہ تو عزت کرتے ہیں اور نہ اُس چیز سے خوف کھاتے ہیں جس کا مضحکہ اُس کے سامنے اُڑایا جائے اس لئے عزت و تکریم کے مستحق ہیں وہ اہلِ قلم جو ظلم کو مضحکہ خیز بنا کر پیش کرتے ہیں اور اُسے عوام کی نظر میں قابلِ نفرت بنا دیتے ہیں“
Leave a Comment