دُھول میں پھول-امجداسلام امجد

دُھول میں پھول

مجازؔ کی مقبولیت، اُس کے دائرے کی وسعت اور نظموں کے ہر سطح پر انقلابی انداز کے بارے میں تو بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن اُس کی شخصیت، تعلیم، مزاج، خاندان اور غیر معمولی جذباتی دفور کے بارے میں بہت کم معلومات کسی مرتب اور غیر جانبدارانہ انداز میں سامنے آتی ہیں اُس کی عزیز بہن صفیہ اختر(جو جانثار اختر کی بیگم اور ہمارے جاوید اختر کی والدہ تھیں)غالباً اس موضوع پر سب سے بہتر لکھ سکتی تھیں مگر اُن کی اس ضمن میں کوئی باقاعدہ تحریر میری نظر سے نہیں گزری البتہ اُس کی دوسری چھوٹی بہن حمیدہ سالم کا ایک مضمون کسی حد تک اس کمی کو پورا کرتا نظر آتا ہے مگر وہ بھی گھر سے باہر گزرنے والی مجازؔ کی زندگی کے بارے میں بوجوہ پورے طور پر آگاہ نہیں تھی۔ اسی طرح فیض صاحب، سجاد ظہیر، ڈاکٹر محمد حسن اور ڈاکٹر شاہین مفتی اُس کی گھریلو زندگی اور فکری پس منظر کے بارے میں اپنی محدود معلومات کے باعث اُس کی اُسی تصویر میں رنگ بھرتے نظر آتے ہیں جس میں حقیقت کم اور Perception زیادہ غالب ہے سو اُس کے بہنوئی جانثار اختر اور ہم عصر دوست اور ساتھی عصمت چغتائی کے مضامین سے ہی مجازؔ بطور انسان کسی حد تک ہمارے سامنے آتا ہے ”کسی حد تک“ میں نے اس لئے کہا کہ عصمت اپنے مزاج اور قلم کی تیزی کے باعث متن سے زیادہ جملہ سازی بلکہ جملہ بازی میں مبتلا ہیں اور جان نثار اختر(غالباً اپنی رشتہ داری کے باعث) نے براہ راست کوئی واضح Comment دینے سے دانستہ طور پرپرہیز کیا ہے لیکن ان سب کے باوجود مجازؔ کی بطور انسان جو آدھی ادھوری سی تصویر بنی ہے اس میں کہیں کہیں جزوی ہی سہی قاری کی ملاقات اُس مجازؔ سے بھی ہوجاتی ہے جو اندر اور باہر دونوں طرف سے بن اور بگڑ رہا تھا عصمت چغتائی کے مضمون ”عشقِ مجازی“ کے کچھ اقتباسات ان سوالوں کے جواب کچھ اس طرح سے فراہم کرتے ہیں۔

”ویسے میں مجازؔ کو بہت کم جانتی ہوں میرا مطلب ہے میں اصل مجازؔ سے زیادہ انہیں اُن کی شاعری میں ڈھونڈ کر پاتی رہی ہوں۔۔۔واقعہ یہ ہے کہ مجازؔ تنہا نہیں وہ اپنے وقت کے سارے دُکھوں، اُلجھنوں، بندشوں اور رکاوٹوں کے خلاف پکارتا ہوا اُٹھا اور خوب اُٹھا پر نہ جانے منہ کے بل کیوں آرہا“

اور پھر سنا کہ مجازؔکے دماغ میں کچھ کیڑے رینگنے لگے ہیں پھر وہ کیڑے بڑھ کر مگر مچھ بن گئے اور ماشا ء اللہ سے مالیخولیا کے ابتدائی درجہ میں قدم رکھ دیا۔

”مجازؔ کی رائے میں حسین شے چاہے باہررکھو یا اندر حسین ہی رہے گی بات یہ ہے کہ مجازؔ نے ایسی مثال بھی دیکھی ہے جہاں عورتیں تعلیم یافتہ بھی ہیں، دنیا کے کاموں میں حصہ بھی لے رہی ہیں اور نسائیت سے بھی محروم نہیں ہوئی“

”اس کے بعد عرصہ تک کوئی خبر نہ ملی نہ ہی کچھ زیادہ ڈھونڈی گئی کہ کچھ ماہ ہوئے سنا کہ منچلے اُنہیں بمبئی سمیٹ لائے ہیں۔۔۔ اب تیسری دفعہ جو ملی تو دیکھا کہ صُورت ہی دوسری ہے۔۔۔چہرے کو غور سے دیکھ کر شبہ ہوتا ہے کہ شائد اس شخص کو خبر ہی نہیں کہ زندہ ہے یا مرچکا۔۔۔غیر حاضر قسم کا وجود، کھانے والوں کے ساتھ کھا لینا، چلتے دیکھ کر چل پڑنا، بیٹھے دیکھ کر بیٹھ جانا اور رخصت ہوتے دیکھ کر اُن کے پیچھے پیچھے سرک جانا، عدم اور وجود کچھ ایک ہی جیسا۔۔۔داد دیتے جی ڈرتا ہے کہ کہیں سچ مچ سٹیج سے نیچے نہ گرجائیں“

جاں نثار اختر مجازؔ کی بہن صفیہ سے شادی کے بعد اُس کا اپنے گھر میں پہلی بار آنے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں“

”مجازؔ آئے اور گھر کی رونق میں دُوگنا اضافہ ہوگیا اُس کے آتے ہی ہمارے گھر لوگوں کا جھمگٹا ہونے لگا مقامی ادیبوں اور شاعروں کے علاوہ شہر کی کتنی ہی ادب نواز خواتین بھی اُسے دیکھنے اور اُسے ملنے کیلئے غیر متوقع طور پر ہمارے یہاں جمع ہوگئیں۔ مجازؔ کی شاعری میں جو لطیف رومانی عنصر ہے اُس نے مجازؔ کو خواتین کے حلقہ میں ہمیشہ حد سے زیادہ مقبول اورہر دلعزیز دیکھا ہے وہ خود کو گُرو شاعر، محفل وفا، مُطرب بزمِ دلبراں کہتا تھا تو اُس کا یہ دعویٰ غلط نہ تھا۔

ڈاکٹر محمد حسن کی ڈائری میں مجازؔ سے متعلق بہت سی باتوں کا ذکرہے لیکن یہ واقعہ ”مجازفہمی“ کے لئے ایک کلید کی حیثیت رکھتا ہے جوشؔ صاحب کے ساتھ مجازؔ کی دوستی، تعلقات اور لفظی جنگوں کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن بہت زیادہ زور جس قطعے پر دیا جاتا ہے اس کے حوالے سے یہ اقتباس بہت ہی دلچسپ،پُرلطف اور مزیدار ہے کہ جو ایک دفعہ اس قطعہ کو سُن کر جب کرشن چندر نے مجازؔ کوداد دی تو کیا منظر بنا، آیئے دیکھتے ہیں۔

پیرجوشِ شباب کیا جانے ”
شورشِ اضطراب کیا جانے
سینہ انقلاب چھلنی ہے
شاعرِ انقلاب کیا جانے

کرشن چندر نے کہا ”مجاز اگر اس خوب صورتی کے ساتھ نظم کہہ سکتا ہے تو میں اپنا قلم واپس لیتا ہوں، میں نے کہا نہیں کرشن چندر تم اس قدر خوب صورت زبان لکھنے والے ہو، تم تو شاعر ہو تمہیں افسانہ نگار کون کہتا ہے“تو مسکرانے لگا اور جوشؔ نے کہا کہ مجازؔ پھر پاگل ہوگیا ہے پہلے پاگل ہوا تھا تو سبطِ حُسن کو گالیاں دیتا رہتا تھا اب مجھے بُرا بھلا کہتا پھر رہا ہے مگر آدمی Genuine اور پُرخلوص ہے اختر ملیح آبادی نے کہا کہ چچا جان اور ذہین بھی ہے۔


اس پر جوشؔ نے کہا ”یہی تو مصیبت ہے“
مجازؔ کی چھوٹی بہن حمیدہ سالم کا مضمون ”جگن بھیا“ کی پہلی چندسطریں کچھ اس طرح سے ہیں۔


”مجاز میرا بھائی ایک ڈرامائی انداز سے اس زندگی میں اُبھر اور اسی انداز سے ڈوب گیا اس کی زندگی امنگوں اور حوصلوں سے بھرپور شروع ہوئی اور محرومیوں، مایوسیوں میں گِھر کر ختم ہوگئی وہ زندگی کو روشن سے روشن تر دیکھنے کی تمنائیں پالتا رہا اور اُس کی اپنی زندگی دھیرے دھیرے تاریک سے تاریک تر ہوتی چلی گئی“


”دِلّی کے قیام کے دوران جگن بھیا نے ایک ایسی چوٹ کھائی جس کا غم اُن کی زندگی میں کبھی نہ بھر سکا، مرہم اور پھائے کا ذکر کیااس پر مزید چوٹیں لگتی رہیں اور دھیرے دھیرے ان کا پورا وجود ایک ناسور بن کر رہ گیا“

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *