دیہاتی بابو شہری چوپال میں-امجداسلام امجد

Chasham E Tamasha was a famous column series written by Amjad Islam Amjad in Express News.

دیہاتی بابو شہری چوپال میں

اسد طاہر جبہ نے اپنی اس کتاب”دیہاتی بابو“ کے سرورق پر اس میں شامل تحریروں کو ”مٹی کی خوشبومیں رچی بسی زندگی کی بھٹی میں پلی تحریریں“ کا ضمنی عنوان بھی د یا ہے جو بہت موزوں بھی ہے اور اس کے مطالعے کے لئے ایک گائیڈ بھی۔اُردو صحافت میں کالم نگاری کی تاریخ کم و بیش اس کے آغاز سے ہی شروع ہوتی ہے مگر گزشتہ ستّر کی دہائی تک اسے عام طور پر روزمرہ زندگی کے مسائل پر ایک فکاہی اور ہلکے پھلکے انداز میں تبصرے کے طور پر لیا جاتا تھا اور اس کے زیادہ تر لکھنے والے ادب کے میدان میں بھی نامور لوگ تھے اور کبھی کبھی تو مولانا ظفر علی جیسے ہمہ جہت لوگ اس کا ذریعہ شاعری کی صنف کو بھی بنالیا کرتے تھے۔

اِدھر کچھ برسوں سے جب سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا غلبہ شروع ہوا ہے اور قلم کے بہت سے کام کیمرے اور براہ راست گفتگو سے لئے جانے لگے ہیں اخباری کالموں کی شکل بھی بدلنا شروع ہوگئی ہے اور ان کا دائرہ وسیع ہوتا چلا جارہا ہے جس کی ایک زندہ مثال آج کی زیر بحث کتاب ”دیہاتی بابو“ہے جس میں اسد طاہر جبہ نے مختلف موضوعات پر اپنے لکھے ہوئے 72مضامین کو ایک جگہ پر جمع کر دیا ہے فرق صرف یہ ہے کہ یہ روزمرّہ کی خبروں کے ساتھ منسلک رہتے ہوئے آپ کو زندگی معاش اور معاشرت کے لازمی اور مستقل موضوعات سے بھی ہم آہنگ رکھتے ہیں اور اپنی سنجیدہ اور بعض اوقات تبلیغی کیفیات کے باوجود مطالعیت یعنی Readabilityکو قائم رکھنے میں کامیاب بھی رہتے ہیں یہ کام دیکھنے میں جتنا آسان نظر آتا ہے کرنے میں اتنا ہی مشکل اور نازک ہے۔

اسد طاہر جبہ کا آبائی تعلق ایک دیہاتی علاقے سے ہے جہاں ان کے صاحبِ علم والد اور لوک دانش سے بھرپور ماحول نے اُن کی ابتدائی پرورش کی اور معاشرے سے فرد کی کمٹ منٹ اور تعلقات کے حوالے سے اپنی ذاتی، ملکی اور بین الاقوامی زندگی اور اس کے تقاضوں کو سمجھنے کی کوشش کی ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی اکثر تحریریں گھوم پھر کر چند مخصوص موضوعات ہی کو چُھونے لگتی ہیں جن میں اُن کی پیشہ ورانہ زندگی یعنی پولیس اور ایف بی آر کی ملازمت کا حوالہ بار بار درآتا ہے لیکن اچھی بات یہ ہے کہ وہ ہر بار اِسے کسی نئے زاویے سے دہراتے ہیں جس کی وجہ سے ان میں تکرار کی کیفیت پیدا نہیں ہوتی اُن کی زیادہ تر پسندیدہ موضوعات کچھ اس طرح سے ہیں۔

۱۔ قرض چار پُھولوں کا
۲۔ ہم ٹیکس کیوں دیں
۳۔ کیا قائداعظم کے بغیر پاکستان ممکن تھا۔
۴۔ ہاؤس وائف اور ورکنگ ویمن
۵۔ تجدیدِ وفا
۶۔ معاشی سیکیورٹی اور ٹیکس کلچر
۷۔ ماں بولی کی موت
۸۔ 21جوڑے
۹۔ لٹل ایکسٹرا
۱۰۔ وقت سے کون کہے یار ذر ا آہستہ

اُن کے علاوہ ایک مستقل رجحان جو اُن کی تحریروں میں ہر جگہ موجود نظر آتا ہے رسول پاکؐ سے محبت اور اُن کے اُسوے کی پاسداری ہے جس کو انہوں نے ”ریاستِ مدینہ“ سے متعلق جاری بحث میں بہت سلیقے اور اعتدال کے ساتھ پیش کیا ہے یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں اُن کی تحریروں سے چند مختلف اور مختصر جملے آپ سے شیئر کروں تاکہ آپ زیادہ آسانی سے میری بات کی تہہ تک پہنچ سکیں سب سے پہلے قائداعظم اور گاندھی جی سے منسوب ایک واقعہ جس کا مقصد گاندھی جی کو کمتر دکھانا نہیں بلکہ دو بڑے آدمیوں کا ایک ہی معاملے پر اپنا اپنا نقطہئ نظر ہے اسد طاہر جبہ لکھتے ہیں۔

”گاندھی جی جو قائداعظم کی ذہانت اور سیاسی حکمت عملی سے شدید متاثر تھے ایک بار دورانِ ملاقات قائداعظم سے یہ سوال پوچھ بیٹھے ”مسٹر جناح آپ اپنے سیاسی فیصلے کیسے کرتے ہیں؟قائداعظم ایک لمحے کے توّقف کے بغیر پر اعتما دلہجے میں گویا ہوئے“ میں اپنے سیاسی فیصلوں کا فارمولا بتانے سے پہلے یہ پوچھنا چاہتاہوں کہ آپ اپنے سیاسی فیصلے کیسے کرتے ہیں؟ جی بتایئے، گاندھی جی نے متجسس لہجے میں کہا”آپ سیاسی میدان میں کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے یہ معلوم کرتے ہیں کہ لوگوں کا مزاج مُوڈ اور رائے کیا ہے اور جب آپ کو لوگوں کی رائے معلوم ہوجاتی ہے تو آپ اُن کو خوش کرنے کے لئے اپنا فیصلہ سناتے ہیں لیکن میں ہمیشہ اس کے برعکس کرتا ہوں میں صرف یہ دیکھتا ہوں کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا؟ اس کے بعد جو صحیح ہوتا ہے وہ میں کرتا ہوں کیونکہ ایک صحیح فیصلہ ایسے ہزار فیصلوں سے بہتر ہوتا ہے جو صرف لوگوں کو خوش کرنے کے لئے کئے جائیں۔

ایک مضمون ”لٹل ایکسٹرا“ کا آغاز کچھ اس طرح سے کرتے ہیں۔ ”کامیاب لوگوں اور اُن کی کامرانیوں کا عمیق جائزہ لے کر تحقیق کرنے والوں کی اکثریت اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ تاریخِ انسانی میں کارہائے نمایاں سرانجام دینے والوں نے ہمیشہ اپنے لئے مشکل راستوں کا انتخاب کیا اور دوسروں سے ہٹ کر سوچا جب کچھ مختلف کر گزرنے کی ٹھان لی تو زندگی نے ان کے مسمّم ارادوں اور عظیم مقاصد کی تکمیل کی راہوں سے کانٹے ہٹا کر انہیں گلِ لالہ سے آراستہ کرکے کامیابی کی شاہراہوں میں بدل دیا“

اپنے ان مضامین نما کالموں میں انہوں نے ایک تحریر میں میری ایک نظم ”وقت سے کون کہے یا ر ذرا آہستہ“ کو بطور عنوان استعمال کیا ہے تو ا س سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے میں آخر میں اپنی ایک تازہ نظم پیش کرتا ہوں جو میرے خیال میں اسد طاہر جبہ صاحب کی بیشتر تحریروں ہی سے متعلق ہے اور اس دُعا کے ساتھ آپ سے رخصت لیتا ہوں کہ رب کریم ہمیں اسد طاہر جبہ جیسی مثبت سوچ کے حامل مزید افراد عطا کرے کہ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی۔

اے مرے دوستو، بھلے لوگو
اے مرے دوستو، بھلے لوگو
عیب سے پاک تو ہے بس اک وہ
جو ہے ہم سب کا پالنے والا
ہر اندھیرا اُجالنے والا

کس لئے پھر یہ خبط عظمت کا
کس لئے دوسروں کے عیبوں کی
گِنتیاں ہی سدا گنے جانا
کس لئے نیند میں چلے جانا!
اے مرے دوستو بھلے لوگو
آؤ بیٹھو،مکالمہ کرکے
ایک دوجے کی خوبیاں جانیں
جو کمی ہو کسی میں وہ مانیں

 

جس رعائت کے آپ طالب ہوں
دوسروں کو بھی وہ عطا کردیں
جس معافی کو اپنا حق سمجھیں
دائرہ اُس کا کچھ بڑا کردیں

 

مل کے جینا جو سیکھ لیں ہم تم
کوئی اُلجھاؤ راہ میں نہ رہے
کوئی بیگانگی کا سایا تک
دل میں اور دل کی ر اہ میں نہ رہے
اے مرے دوستو بھلے لوگو
اے مرے دوستو بھلے لوگو

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *