زندگی کی ریل گاڑی
اس زمین پر ہر جنم لینے والی انسانی زندگی آتے ہوئے جن منظروں کا سامنا کرتی ہے واپسی کے سفر میں خود اس کی زندگی بھی ان منظروں کا حصہ بن جاتی ہے۔ اس سارے عمل کے درمیانی حصے میں ہمارے ساتھ کیا ہوتا ہے اس کو کسی دانشور نے ریل کے سفر کی مثال سے کچھ یوں سمیٹا ہے کہ
”زندگی ریل کے ایک سفر جیسی ہے کہ جس کے دوران کچھ سٹیشن آتے ہیں کچھ راستے بدلتے ہیں اور کچھ حادثے اپنی چہرہ نمائی کرتے ہیں۔ پیدائش کے وقت جب ہم اس ٹرین پر سفر کا آغاز کرتے ہیں تو ہاتھ پکڑنے کے لئے ہمارے والدین سامنے آتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سنگم ہمیشہ رہنے والا ہے ا ور وہ یونہی ہمیشہ ہمارے ساتھ ساتھ چلتے رہیں گے لیکن ہوتا یہ ہے کہ کسی سٹیشن پر وہ اچانک ہم سے جدا ہوجاتے ہیں اورہمیں باقی کا سفر اکیلے طے کرنا پڑتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگ ٹرین پر سوار ہونا شروع ہوتے ہیں جن کے ساتھ ہم مختلف رشتوں میں بندھتے چلے جاتے ہیں ہمارے دوست، رشتہ دار اور بچے اور سب سے بڑھ کر ہمارا جیون ساتھی۔ لیکن یہ ساتھ بھی کسی خاص مدت کا اسیر ہوتا ہے اور پھر یہ لوگ بھی ایک ایک کرکے ٹرین سے اُترنا شروع کر دیتے ہیں اور ان کی یادگار ایک خلا کی شکل میں ہمارے ساتھ رہنا شروع کر دیتی ہے ان میں سے بعض ایسی خاموشی سے اور چپ چاپ اُترتے ہیں کہ ہمیں اُن کے جانے کا پتہ اُن کے بعد چلتا ہے جو ایک بہت ہی تکلیف دہ صورتِ حال کو جنم دیتا ہے۔
شروع کے اس سفرمیں خوشی اور خوش گواری کے ساتھ ساتھ غم،اندیشے اور اُمیدیں کبھی خیر مقدم اور کبھی الوداع کی منزلوں سے گزارتے ہیں۔ دیکھا جائے تو کامیابی ان تمام مسافروں سے اچھے رشتے رکھنے میں ہے جس کے لئے ہمیں اپنے وقت کا بہترین حصہ مخصوص کرنا ہوگا۔ ایک مسلسل اور مستقل راز یہی ہے کہ کوئی بھی یہ نہیں جانتا کہ اس کا آخری سٹیشن کون سا ہے اور کب آئے گا سو یہ ضروری ہوجاتاہے کہ ہم اس سفر کے دوران بہترین طریقے سے محبت،درگزر اور اپنی بھرپور اعانت اور قربانی کے ساتھ وقت گزاریں اور اس بات کو ہمیشہ دھیان میں رکھیں کہ جب ہم اپنی سیٹ چھوڑ کر ٹرین سے اُتریں تو جو ہم سے بعد میں اس ٹرین پر سوار ہونے والے ہیں وہ ہماری یادوں کو اپنے دل و دماغ سے قریب اور خوش گوار پائیں“۔
بظاہر یہ باتیں بہت عام سی اور سینکڑوں بار کی دہرائی ہوئی لگتی ہیں البتہ ٹرین کے سفر کے حوالے سے اس کے بعض استعارے نئے بھی ہیں اور متاثر کُن بھی۔ زندگی کی طرح اس ٹرین کے سفر کا بھی آغاز یا انجام بتایا نہیں گیا کہ یہی پراسراریت ہی تو اس کے حُسن کی اصل ضامن ہے۔ میرؔ صاحب نے کہا تھا
بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو
ایسا کچھ کرکے چلو یاں کہ بہت یاد رہو
لیکن اس اثباتیت کے پہلو بہ پہلو وہ اُس احساس زیاں اور فنا پذیری کا ماتم بھی کرتے نظر آتے ہیں جو اُس بے معنویت اور بصیرت کو بھی بہت دیر تک واہموں میں اُلجھائے رکھتی ہے۔
یہی جانا کہ کچھ نہ جانا، ہائے
سو بھی اک عمر میں ہُوا معلوم
لیکن زندگی کی ٹرین کا یہ سفر”ایسا کچھ کرکے چلو“ والی اپروچ سے نہ صرف زیادہ نزدیک ہے بلکہ ا س بات کا بھی شاہد ہے کہ خدا نے ہمارے سمیت اس دنیا کی کسی بھی شئے کو بے مقصد پیدا نہیں کیا یعنی اگر غورسے دیکھا جائے تو اس گفتگو کا حاصل ٹرین پر چڑھنا یا اُترنا نہیں بلکہ اس سفر کی درمیانی مدت کا ہے۔
ایک اور فلسفی کا قول ہے کہ”ہماری قسمت ہمارے جوتوں سے نہیں بلکہ اُن قدموں سے متعین ہوتی ہے جو ہم اُٹھاتے ہیں“۔
ایک اور بزرگوار فرماتے ہیں کہ ”اگر رشتوں کی جڑیں مضبوط ہوں تو فاصلوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا“۔
اور پھر اسی سفر کے درمیانی حصے یعنی ”قیام“ کے وقفے کے لئے جن خوشگوار یادوں کو چھوڑکے جانے اور گلشن کی تزئین میں اپنی جان تک کا نذرانہ دینے کی جو بات بین السطور کہی گئی ہے اس کا ایک روپ یہ بھی ہے کہ
دل میں پھول کھلا دیتے ہیں لوگ محبت کرنے والے
آگ میں راگ جگادیتے ہیں لوگ محبت کرنے و الے
پانی بیچ بتاشہ صورت خود تو گُھلتے رہتے ہیں
سم کو شہد بنا دیتے ہیں لوگ محبت کرنے والے
خواب خوشی کے بوجاتے ہیں لوگ محبت کرنے والے
زخم دلوں کے دھو جاتے ہیں لوگ محبت کرنے والے
تتلی سی لہراتے ہیں پھولوں کی اُمید لئے
اک دل خوشبو ہوجاتے ہیں لوگ محبت کرنے والے
اور ان زندگی میں اپنا پورا حصہ ڈالنے والوں کے حوالے سے ایک سونے میں تولی جانے والی بات یہ ہے کہ
”کسی نے پوچھا کہ کیا موت سے زیادہ تکلیف دہ بات کوئی ہوسکتی ہے جواب ملا کہ ہاں۔ جب کسی اعلیٰ ظرف انسان کو کسی کم ظرف انسان کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑے“
Leave a Comment