سفید پوش، جُگنی اور پروٹوکول
میں واٹس ایپ وغیرہ پر بنائے جانے والے طرح طرح کے گروپس کا حصہ بننے سے اکثر و بیشتر معذرت کرلیتا ہوں کہ ایک تو میرے پاس اُن کی گُوناگُوں پوسٹوں کو پڑھنے،اُن میں شامل ہونے یا روزانہ حاضری لگوانے کا وقت ہی نہیں ہوتا اور دوسرے ان میں اس قدر الّم غلّم بھرا ہوتا ہے کہ بعض اوقات ایک معمولی سی بے معنی قسم کی انفرمیشن بھی کئی کئی ہفتوں تک دن رات اور بار بار چلتی رہتی ہے اس کے باوجود مختلف وجوہات کی بِنا پر بہت سے دوستوں سے چونکہ معذرت ممکن نہیں ہوتی اس لئے مجبوراً ”ہاں“ کرنا پڑجاتی ہے اور یوں کئی ایسے امتحانوں اور جواب دہیوں سے گزرنا پڑتا ہے کہ بعض اوقات جی بہت تنگ پڑجاتا ہے لیکن اس تصویر کا ایک دوسرا رُخ بھی ہے اور وہ یہ کہ کبھی کبھی اچانک کوئی ایسی پوسٹ بھی دکھائی پڑجاتی ہے کہ جس کا نفسِ مضمون یا تو خود ہی بے حد دلچسپ اور معلومات افزا ہوتا ہے یا اس کی معرفت”دل کو کئی کہانیاں یاد سی آکے رہ گئیں“ کا سا ماحول بن جاتا ہے اس کی ایک تازہ تر مثال پاپولر میرٹھی کے قائم کردہ گروپ ”ہنسنا ہے زندگی“ کی ایک پوسٹ کی صورت میں سامنے آئی اور جو اِس کالم کی تحریرکی محرک بھی بنی ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس گروپ کی روزانہ پچاس سے زیادہ پوسٹوں میں شائد ہی ایک آدھ توجہ کے قابل ہوتی ہے کہ بیشترباتوں کا ادب یا مزاح کسی سے بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا چونکہ یہ ایک آگے بڑھائی ہوئی یعنی Forwarded تحریر ہے اس لئے نہ تو مجھے اس کے مصنف کا پتہ ہے اور نہ اُس کتاب یا مضمون کا جو اس کا بنیادی ماخذ اور مرکز ہے بات شروع ہوتی ہے ملکہ وکٹوریہ، اُس کے عہد اور ریکارڈ حکومتی طوالت سے اور پھر اس میں کچھ ایسے واقعات در آتے ہیں جن سے آپ کی پہلے سے موجود معلومات میں بعض ایسے رنگوں کا اضافہ ہوتا چلا جاتاہے جو اس سے پہلے اس طرح سے سامنے نہیں آئے تھے تحریر چونکہ خاصی طویل ہے اس لئے میں اُس کے کچھ ایسے حصے ایڈٹ کر رہا ہوں جن کا تعلق عنوان میں درج حوالوں کے علاوہ اور مختلف ہے۔ مختلف مواقع پر کئے گئے مصنف کے تبصروں اور تجزیوں سے جزوی اختلاف تو شائد کہیں کہیں ممکن ہو مگر ایمانداری کی بات ہے کہ جس طرح اُس نے منظر کو اُس کے پس اور پیش منظر کے ساتھ ملا کر تصویر کیا ہے اُس کی مہارت دیدنی بھی ہے اور قابل داد بھی۔
”ملکہ وکٹوریہ 63 سال 2 ماہ اور دو دن سندِ اقتدار پرجل افروز رہی وکٹوریہ کے دور میں انگریز سلطنت میں حقیقتاً سورج غروب نہیں ہوتا تھا کرہ ارض پر سورج کی پہلی کرن نیوزی لینڈ میں پڑتی ہے نیوزی لینڈ برطانوی سلطنت کا حصہ تھا سُورج نیوزی لینڈ کے بعد جُوں جُوں آگے بڑھتا تھا اس کے راستے میں آنے والے تمام ملک تمام زمینوں پر برطانیہ کا یونین جیک لہراتا تھا۔۔۔ ملکہ وکٹوریہ نے دنیا کو بے شمار نئی چیزیں، نئی روایات بھی دیں یہ روایات یہ چیزیں آج تک موجودہیں مثلاً دنیا میں آج بھی وکٹورین طرزِ تعمیر موجود ہے وکٹورین فرنیچر بھی آج تک بنایا جاتا ہے ملکہ وکٹوریہ جس طرز کی بگھی استعمال کرتی تھی وہ بگھی بعد ازاں پوری سلطنت میں عوامی سواری رہی اور وہ وکٹوریہ کہلائی، برطانیہ میں بہادری کا سب سے بڑا اعزاز آج بھی وکٹوریہ کراس کہلاتا ہے اور دنیا میں پروٹوکول کا جدید نظام بھی ملکہ وکٹوریہ نے وضع کیا تھا ملکہ نے وی آئی پی اور وہی وی آئی پی کی باقاعدہ کیٹگر یز بھی بنوائی تھیں۔
انگریز دور میں تحصیل کی سطح پر کرسی نشین اور سفید پوش دو اعزازی عہدے ہوتے تھے کرسی نشین کا ٹائٹل گاؤں کے ا ُس شخص کو ملتا تھا جو انگریز کو گھوڑے، خچر اور فوجی مہیا کرتا اورمخبری کا کام انجام دیتا۔ کرسی نشین کو سرکاری دفاتر میں سرکاری افسروں کے سامنے کرسی پر بیٹھنے کی اجازت ہوتی تھی جب کہ باقی لوگ زمین پر بیٹھتے تھے یا زیادہ سے زیادہ افسر کے سامنے کھڑے ہوسکتے تھے جب کہ سفید پوش وہ معزز لوگ ہوتے تھے جنہیں سرکار اُن کی وفاداریوں سے خوش ہوکر ہر سال سفید رنگ کے دو جوڑے عنائت کرتی تھی اور یہ لوگ یہ کپڑے پہن کر سرکاری دفتروں میں جاتے تھے سرکاری پروٹوکول سفید پوشوں اور کرسی نشینوں سے شروع ہوتا تھا ااور ملکہ تک جاتا تھا اس کی حد سرکار، نمبردار، کانسٹیبل اور پٹواری سے شروع ہوتی تھی اور وائسرائے تک جاتی تھی وائسرائے ملکہ کے گورے غلام ہوتے تھے ان لوگوں کو کیا کیا پروٹوکول حاصل تھا یہ تمام معلومات ایک سرکاری ڈائری میں درج ہوتی تھیں یہ ڈائری بلیو بُک کہلاتی تھی ملکہ کا ایک حکم سلطنت کی بلیو بُک بدل دیتا تھا ملک کے تمام معززین ذلیل ہوجاتے تھے اور انہیں ذلیلوں کے درجے مل جاتے تھے۔
ملکہ کی گولڈن جوبلی کی تقریبات پوری سلطنت میں منائی گئیں اور تقریبات میں دو اہم ترین چیزیں شامل تھیں ایک۔۔۔ملکہ نے اپنی سلطنت کے تمام بڑے شہروں میں اپنے نام کی یادگاریں بنوائیں یہ یادگار یں آج بھی برطانوی راج کی تمام بڑے شہروں میں موجود ہیں، دوسرا۔۔لندن سے ہندوستان تک ملکہ کے نام سے جوبلی مشعل نکلی، اسی مشعل نے ملکہ کی پوری سلطنت کا چکر لگایا۔۔۔مشعل ہندوستان کے ایک ضلع میں آتی ضلع بھر کے لوگ ڈھول تاشوں سے اس کا استقبال کرتے، آتش بازی کا مظاہرہ ہوتا، گانے گائے جاتے اور ڈانس کئے جاتے یہ مشعل اس عالم میں پورے ضلع کا چکر لگاتی۔۔۔یہ مشعل ہندوستان کے مختلف علاقوں سے ہوتی ہوئی پنجاب پہنچی تو پنجاب حکومت نے جوبلی کے نام سے ایک طویل پنجابی گانا تیار کروایا یہ گانا قصور کے دو بھائیوں نے تیا ر کیا تھا یہ اَن پڑھ تھے جو بلی کا لفظ اُن کے منہ پر نہیں چڑھتا تھا چنانچہ انہوں نے جوبلی کو ”جگنی“ بنادیا ان نامعلوم فنکاروں نے اس جگنی (جوبلی) میں پنجاب کے تمام علاقوں کی ثقافت بیان کی۔ جگنی گئی ملتان۔۔۔یعنی جوبلی کی مشعل ملتان چلی گئی۔ جگنی گئی گجرات۔۔وغیرہ ملکہ وکٹوریہ کو مرے ہوئے 113 برس ہوچکے ہیں لیکن اس کی جگنی آج تک ہندوستانی پنجاب اور پاکستانی پنجاب دونوں میں زندہ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دنیا کی اتنی بڑی سلطنت ختم کیسے ہوگئی ہے وہ برطانیہ جس کی ملکہ کی مشعل 68 ممالک میں گھمائی گئی تھی وہ برطانیہ آج صرف دو لاکھ 43610 مر بع کلومیٹر تک محدود ہوکر کیوں رہ گیا؟
اس زوال کی بے شمار وجوہات میں سے ایک وجہ گوروں کی بلیو بک اور پروٹوکول بھی تھا۔۔۔”سرکار کے ظلم کی حالت یہ تھی بریگیڈیئر جنرل ڈائر نے 13اپریل 1919ء کو امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں گولی چلا کر 370 لوگ قتل کردیئے اور کوئی شخص اس کا ہاتھ نہ روک سکا۔۔۔کیوں؟ کیونکہ جنرل ڈائر کو ملکہ کے عنائت کردہ اختیارات کے مطابق گولی چلانے کا اختیار حاصل تھا۔۔۔یہ وہ پروٹوکول اور یہ وہ بے لگام اختیارات تھے جنہوں نے برطانیہ کے ڈوبتے سورج کو تاریخ کے سیاہ سمندر میں ڈبکی دے کر بجھا دیا۔ برطانیہ نے تاریخ کے اس خوفناک زوال کے بعد چار بڑے فیصلے کئے جو ہمارے لئے مشعل راہ ہوسکتے ہیں۔
پہلا فیصلہ پروٹوکول کا خاتمہ تھا برطانہ نے لوگوں کے درجے ختم کر دیئے آج برطانیہ میں شاہی خاندان موجود ہے لیکن اُن کی شہنشاہیت صرف محل تک محدود ہے یہ لوگ جوں ہی محل سے باہر آتے ہیں عام برطانوی لوگوں اور ان میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ برطانیہ کے کئی وزیراعظم 282 سال سے تین بیڈروم کے گھر 10 ڈاؤننگ سٹریٹ میں رہ رہے ہیں۔
دوسرا فیصلہ قانون کی حکمرانی تھا برطانیہ میں کوئی شخص قانون سے مضبوط اور بالاتر نہیں برطانیہ نے فیصلہ کیا ہمارے ملک میں قانون مضبوط ہوگا اور کوئی عہدہ یا کوئی شخصیت اس سے بالاتر نہیں ہوگی۔
تیسرا فیصلہ جمہوریت تھا، ملک کے تمام اختیارات کا ماخذ عوام ہیں برطانیہ میں پچھلے سو سال سے الیکشن کی دھاندلی کا کوئی الزام نہیں لگا۔
اور چوتھا اور آخری فیصلہ لیڈر شپ تھا۔ یہ لوگ صرف اُس شخص کو حقِ حکمرانی دیتے ہیں جو ذہنی، تعلیمی، اخلاقی اور جسمانی لحاظ سے شاندار ہوتا ہے ان کے کسی سیاستدان پر بدعنوانی، ہٹ دھرمی، نقل، جعلی ڈگری یا بے ایمانی کا الزام لگ جائے تو اس کا سیاسی کیریئر ختم ہوجاتا ہے۔۔۔
(بدلنا صرف سیاستدانوں کو ہی نہیں بلکہ عوام کو بھی ا پنی سوچ بدلنی ہوگی۔ ہم آج بھی جگنی کے دور میں رہ رہے ہیں)
Leave a Comment