مجاز۔ایک گمشدہ حقیقت

مجاز۔ایک گمشدہ حقیقت

مجاز۔ایک گمشدہ حقیقت

اب تو دنیا بھر کے لٹریچر، لکھاریوں اور اُن کی تحریروں کے متن، تاریخ اور پس منظر تک رسائی آسان ہوگئی ہے اور یوں ماضی قریب یا بعید کے کسی لکھنے والے کو سمجھنے یا ادب میں اُس کی حیثیت کے تعین میں پہلی جیسی مشکلات حائل نہیں رہیں جبکہ کچھ عرصہ قبل تک یہ معاملہ بہت پیچیدہ اور اُلجھا ہوا تھا۔ کرکٹ کے کھلاڑیوں کی طرح لکھنے و الوں کی بھی اک بھیڑ سی لگی ہوئی ہے جس میں مسلسل لمبی اننگز کھیلنے والوں کے ساتھ ساتھ ایسے لوگ بھی نظر آتے ہیں جن کا مختصر قیام بھی انہیں ایک ایسی زندگی دے جاتا ہے جو کئی بڑے بڑے سینئرز کو بھی حاصل نہیں ہوتی ایک دو اننگز یا صرف چند میچوں تک اُن کی موجودگی ایسے نقش چھوڑ جاتی ہے جو اپنی مثال آپ ہوتے ہیں یہ لوگ بعض اوقات انفرادی سطح پر ہی ظہور کرتے ہیں اور پھر جیسے یکدم گم سے ہوجاتے ہیں اور کچھ ایک گروہ، مکتبہ فکر، ہم عمری اور کم و بیش ایک جیسی شہرت کے باعث کسی نہ کسی انداز کے ایک گروپ کی شکل اختیار کرجاتے ہیں اس کی کسی خاص دور میں بے پناہ مقبولیت اور پھر اکثر کینسر میں جیتے جی موت بھی اپنی جگہ پر کسی معمّے سے کم نہیں ایسے ہی لوگوں کے بارے میں فارسی میں کہا جاتاہے کہ

؎خوش درخشید ولے شعلہ مستعجل بُود

یعنی زیادہ دیر تو نہیں چمکا مگر جتنا بھی چمکا خوب چمکا اور اب تاریخ کا حصہ ہے۔ ان لوگوں کی کیمسٹری میں وہ کون سے عناصر ہیں جو بظاہر ایک دوسرے سے جغرافیائی، فکری، لسّانی یا نظریاتی دُوری کے باوجود بھی انہیں ایک لڑی میں پرو دیتی ہے۔ ادبِ عالم کی تاریخ میں ہر زبان میں اس طرح کے لوگ کم یا زیادہ مل جاتے ہیں مگر مجازؔکے دور، ہم عصروں اورادبی فضاکے بارے میں پڑھتے اور تحقیق کرتے ہوئے کچھ بہت عجیب و غریب اور اپنی نوعیت میں بے حد مختلف ایسی باتیں بھی سامنے آئیں جن میں سے کئی ایک کو اگر آپ ”حسنِ اتفاق“ کا درجہ بھی دیں توبھی ان کی سحر انگیزی متاثر کئے بغیر نہیں دیتی مثال کے طور پر یہ کیسی عجیب بات ہے کہ بیسویں صدی کے پہلے پندرہ برسوں میں اُردو زبان میں چار ایسے لکھنے والے پیدا ہوئے جن میں بظاہر ہم عصر ہونے کے باوجود بھی براہ راست رابطہ نہ ہونے کے برابر تھا مگر یہ چاروں یعنی اختر شیرانی، میرا جی، منٹو اورمجازؔ ادب میں جلد اور غیر معمولی شہرت اور نوجوان نسل میں بے پناہ مقبولیت کے ساتھ ساتھ کئی اور معاملات میں بھی ایک مخصوص گروپ کا حصہ دکھائی دیتے ہیں چاروں میں سے کسی کو بھی عمر کی پانچ دہائیاں پوری کرنے کی مہلت نہیں ملی چاروں مے کش ہی نہیں مے خوار بلکہ رندِبلا نوش تھے اور شراب نے اُن سب کی بے مثال ذہنی، جسمانی اور فطری صلاحیتوں کو منفی طور پر متاثر کرنے اور انہیں ڈی ٹریک کرنے میں کم و بیش ایک سا رول ادا کیا۔ چاروں نوجوان نسل کے محبوب اور ہیرو تھے اور اگرچہ اقبال اور فیض 1935 ء کے لگ بھگ ایک ساتھ اپنے ادوار کی موثر ترین آوازوں کے طور پر دیکھے جارہے تھے اور اُن کے ہمراہ کچھ نئے اور پرانے لکھنے والوں کا ایک جمِ غفیر بھی آگے بڑھتا نظر آتا ہے جن میں سے کئی ایک آگے چل کر خود اپنے دور کے نمائندہ اور نگہدار کہلائے مگر اس کے باوجود اختر شیرانی، میرا جی، منٹو اور بالخصوص مجازؔ نے خواتین اور نوجوان نسل میں جو بے مثال مقبولیت حاصل کی وہ اُس وقت کے معاشرے اور لکھاریوں کے باہمی تعلق کی ایک ایسی تصویر ہے جو دوبارہ کبھی اس شکل میں نظر نہیں آتی اگر چہ بعد میں کچھ اور اہلِ قلم سمیت فیض، فراز اور پروین شاکر کو بھی نوجوان نسل میں بے انتہا مقبولیت حاصل ہوئی لیکن جس طرح سے ایک مختصر دورانیے میں ہی سہی مجازؔ نے اپنے عہد کی نئی نسل کو متاثرکیا اور پہلی بار ہمیں اردو کی ادبی فضا میں خواتین کی موجودگی کا بھرپور احساس دلایا اس کا کریڈٹ بلاشبہ مجازؔ ہی کو جاتاہے انہیں کیوں اس قدر جلد (بلکہ اُن کی زندگی میں ہی) تقریباً فراموش کردیا گیا یہ اپنی جگہ پر کسی سربستہ راز سے کم نہیں کہ مجازؔ کی زندگی کام، مقبولیت اور آخری عمرکی بے معنویت پر جن بڑے بڑے اور اُس سے قریب تر لوگوں نے لکھا ہے اُس کی مدد سے بھی کچھ وثوق سے پتہ نہیں چلتا کہ آخر ہوا کیا تھا کہ ایک شاعر جو طالب علمی کے زمانے میں اپنی نسل کی Heart beatکی شکل اختیار کر گیا تھا اور جس کے اشعار علی گڑھ یونیورسٹی کے لڑکیوں کے ہاسٹلز اور ڈائریوں کے ساتھ ساتھ پورے برصغیر کے اردو ادب سے متعلق نوجوانوں کے دلوں میں گونجا کرتے تھے آخر ایسا کیا ہوا کہ اس کے قلم کی تاثیر دیکھتے دیکھتے بے رنگ ہوگئی اور خوداُس کی کسی جگہ پر موجودگی واقعے سے زیادہ ایک سانحے کی شکل اختیار کرگئی لیکن اس عجیب و غریب منظر نامے پر ایک نظر ڈالنے سے پہلے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس دور کے عالمی پسِ منظر میں اس غلام لیکن خواب دیکھنے و الے برصغیر کی عمومی نفسیات، تعلیم، ادب سے تعلق اور بین الاقوامی سطح پر اُٹھنے والے نوبہ نو طوفانوں پر بھی ایک نظر ڈالی جائے کہ بیسیوں صدی کے یہ پہلے چالیس برس ہی تھے جن کی وجہ سے نہ صرف دنیا کا بلکہ برصغیر کا نقشہ بھی بدلا اور یہاں کے لوگوں کو پہلی بار زندگی اور اُس کے مختلف نظریات کے بارے میں یورپ(بلکہ انگلستان) کے علاوہ بھی ایسے لوگوں کی فکر اور سوچ سے آگاہی ہوئی جن کی وجہ سے دنیا نہ صرف دو عظیم جنگوں کی طرف تیزی سے بڑھ رہی تھی بلکہ جس کے فوری اور دیرپا اثرات کی وجہ سے انسانی تاریخ ایک ایسے دور میں داخل ہوئی جو اس سے پہلے فلسفے اورنظریات کی حد تک محدود تھا ایک طرف ترکی کی خلافتِ عثمانیہ(جس کا براہ راست تعلق یورپ کے بعض علاقوں سے صدیوں پر محیط تھا) پارہ پارہ ہوئی اور دوسری طرف بالفور ڈیکلریشن کے ذریعے اسرائیل کو ایک خواب سے حقیقت بنانے کا وہ سلسلہ آغاز ہوا جس کی وجہ سے آگے چل کر دنیا ہتھیاروں کے بجائے سرمائے کی تقسیم کی جنگ میں مبتلا ہوگئی۔ ہیگل اور کارل مارکس کی تعلیمات کے زیر اثر سرمایہ دارانہ نظام کے بالکل مخالف ایک نیا نظام کمیونزم یا سوشلزم کی شکل میں سامنے لایا گیا جس کے زیر اثر جہاں پوری دنیا بدلی وہاں برصغیر میں کانگریس اور مسلم لیگ کے علاوہ بھی غیر ملکی سامراج کے خلاف اور قومی آزادی کے حق میں سوچ سر بلند ہوئی اس نئی سوچ کو جوشؔ کی انقلابی شاعری سے قطع نظر سب سے زیادہ سہارا ترقی پسند تحریک نے دیا مگر غور سے دیکھا جائے تومجازؔ اور اس کی شاعری کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے ہمیں 1930ء کی دہائی کے ہندوستان کو سمجھنا ہوگا اور اس سفرکے لئے ہمیں قدم قدم پر مجازؔ کی ضرورت پڑے گی۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *