محبت کا سمندر-امجداسلام امجد

محبت کا سمندر-امجداسلام امجد

محبت کا سمندر

میں نے اپنی پوری زندگی میں اب تک صرف سات دن ترکی میں گزارے ہیں لیکن کئی حوالوں سے یہ ملک اور اس کے لوگ میرے دل سے بہت قریب ہیں اور غالباً یہ مسلم اکثریت والے ممالک میں سے واحد ملک ہے جہاں ہمیں دلی طور پر ”کاردش“ یعنی بھائی کا درجہ دیا جاتاہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ اچھے اور پاکستان سے مخلص لوگ صرف ترکی ہی میں پائے جاتے ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ حکومتی بیانات اور پالیسیوں سے قطع نظر عوام کی سطح پر ایسی قربت اور محبت ایک اجتماعی روّیئے کے طور پر صرف مولانا رُوم اور اُن کے معنوی شاگرد علامہ محمد اقبال کے نام لیواؤں میں بھی اس درجہ کمال کو چھُوتی نظر آتی ہے۔ جس کا ایک خوبصورت مظاہرہ کل شام لاہورمیں ترکی کے کلچرل سنٹر، یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ میں ہُوا کہ ہماری بہت عزیز دوست انقرہ یونیورسٹی کے شعبہ اُردو کی سربراہ ڈاکٹر آسمان ہیلن اوزجان اپنی پی ایچ ڈی کی دو شاگردوں کے ساتھ ایک مختصر دورے پر پاکستان آئی ہیں اور یہ تقریب انہی کی پذیرائی اور احباب سے ملاقات کے لئے ترتیب دی گئی تھی۔

 
بہت سے قارئین کے لئے شائد یہ ایک اطلاع ہو کہ ترکی کی تین یونیورسٹیوں (استنبول، انقرہ اور قونیہ)میں اُردو کے شعبے نہ صرف قائم ہیں بلکہ بہت دنوں سے اس خوبصورت زبان کی ترویج و ترقی کے لئے برسرِ عمل ہیں جس کی تعمیر میں تاریخی طور پر بھی وہ نہ صرف شامل رہے ہیں بلکہ لفظ ”اُردو“ بھی بنیادی طور پر ایک ٹرکش لفظ ہے جو رُوسی ترکستان کے راستے مغلوں کی معرفت اُن کے ساتھ ساتھ برصغیرمیں داخل ہُوا تھا یورپ کے صنعتی انقلاب اورنو آبادیاتی دور کے آغاز سے پہلے ترکی میں قائم سلطنت عثمانیہ کو مسلمان دنیا کے سیاسی مرکز کی سی حیثیت حاصل تھی جو علمی اور فکری حوالے سے بھی سپین کے بعد مسلمان تہذیب کا مرکز ااور استعارہ بن چکا تھا اور مولانا رُوم کے اثرات”نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کا شغر“ اپنی جلوہ نمائی کر رہے تھے۔

 
قیام پاکستان کے بعد بھی ایوب خان کے دور میں قائم شدہ RCD سے لے کر اب تک دونوں ملکوں میں تعلقات ہمیشہ پُرخلوص اور مستحکم رہے ہیں اس پسِ منظر میں چند برس قبل جب استنبول یونیورسٹی کے شعبہ اُردو کے سربراہ اور بہت عزیز دوست خلیل طوقار، پراجیکٹ ڈائریکٹر کے طور پر ایک سال کے لئے لاہور آئے تو اس یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ کی بنیاد رکھی گئی جہاں موجودہ قیادت نے اس خوبصورت محفل کا انعقاد کیاتھا جس میں میں، بیگم، بہو اور پوتوں کے ساتھ اس لئے شامل ہو اکہ اب اس شام کی مہمانِ خاص ڈاکٹرآسمان ہیلن اوزجان اپنی محبوب اورخوشگوار بے تکلفی کے باعث ایک طرح سے میرے سارے خاندان کی دوست بن چکی ہے آسمان سے میری پہلی ملاقات کوئی بائیس برس پہلے جی او آر والے سرکاری گھر میں ہوئی تھی جب وہ پروین شاکر پر کی جانے والی اپنی پی ایچ ڈی کی ریسرچ اور مقالے کی تیاری کے سلسلے میں پاکستان آئی تھی اور مجھ سے اس ضمن میں انٹرویو کرنا چاہتی تھی اس کی بے ساختہ اور فطری مسکراہٹ کے زیرِ اثر اُس کا پورا وجود مسکراتا ہوا محسوس ہو رہا تھا اُس وقت تک اس کی اُردو بول چال زیادہ رواں نہیں ہوئی تھی لیکن اس کے لہجے میں ایسی مٹھاس اور اندازِ بیان میں ایسی وارفتگی کی کیفیت تھی کہ جو اپنی مثال آپ ہے اب اس کی اُردو تحریر اور تقریر دونوں کسی باقاعدہ”اہلِ زبان“ سے کم نہیں اور اس پر مستہزاد اس کی علمی قابلیت اورمدرسانہ استعداد ہے کہ جس کی وجہ سے اب اسے پوری اُردو دنیا میں بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ترکی کے واحدسات روزہ دورے کے دوران انقرہ یونیورسٹی کے شعبہ اُردو کے ساتھ ساتھ کچھ وقت قونیہ تک کی ہم سفری میں بھی گزرا میری بیگم فردوس جو اس سفر میں ہم راہ تھیں عام طورپراجنبی خواتین سے بے تکلف ہونے میں وقت لیتی ہے مگر آسمان کے ساتھ چند ہی گھنٹوں کی رفاقت میں وہ ایسی گُھل مِل گئی کہ اب وہ دونوں مجھے ایک طرف کرکے باقاعدہ سہیلیاں بن چکی ہیں اور کل کے بعد سے میرے پوتے ابراہیم اور موسیٰ ذی شان بھی اُس کی محبت میں مبتلا ہوچکے ہیں کہ اُسے بچوں کو دوست بنانے کا ہنر بھی خوب خوب آتا ہے اب یہ میڈیا اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا کما ل ہے کہ جو ٹرکش فوک میوزک میں دکھایا اور سنوایا گیا وہ میرے لئے تو ایک نئی چیز تھی مگر تُرکی ڈراموں کی وساطت سے یہ بچے اُس سے مانوس بھی تھے اور آگاہ بھی۔


بدقسمتی سے لاہور میں یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ کے قیام کے کچھ عرصہ بعد ہی پوری دنیا کورونا کی لپیٹ میں آگئی اور یوں یہ ادارہ بھی حفاظتی پابندیوں کے باعث ابھی تک وہ مقام حاصل نہیں کرسکا جو اس کا حق ہے اُمید کی جانی چاہیئے کہ اب اس کے توسط سے زبانِ ادب اورکلچر کے حوالے سے ادبی تراجم کے ساتھ ساتھ باہمی میل جول اور رابطوں میں بھی اضافہ ہوگا دیگر مہمانوں میں یاسمین حمید، بیگم اور اصغر ندیم سیّد، سعادت سعید اورا ُس کی صاحبزادی فاطمہ، ڈاکٹر خالد سنجرانی اور اُن کے بچوں اور دیگر مہمانوں کے ساتھ ڈاکٹر کامران سے بھی ملاقات رہی۔ آسمان نے ترکی لوک گیتوں کے حوالے سے مختصر مگر بہت عالمانہ گفتگو کی میں نے اپنی حال ہی میں شائع ہونے والی دو نئی کتابیں ”قاصدکے آتے آتے“ اور کالموں کے مجموعہ ”خواب اور خدشے“ اُسے دیئے اور بتایا کہ میر ی لکھی ایک فلم ”شمسِ رُومی“ کی شوٹنگ اسلام آباد کے نواح میں ایک خصوصی سیٹ پر انہی دنوں میں شرو ع ہونے والی ہے اور یہ ممکن ہے کہ ہم مولانا رُوم سے اُس کی نسبت کے حوالے سے اُس کو بھی کچھ لمحوں کی زحمت دیں۔

 
 طیب اردگان کا جدید ترکی اَتاتُرک کے سیاسی اور مولانا روم کے علمی ا ور صوفیانہ انقلابات کو بڑی مہارت کے ساتھ آگے لے کر بڑھ رہا ہے 2023ء میں ایک سو سالہ سامراج زدہ معاہدے کے اختتام کے ساتھ ساتھ ترکی کے لئے مزید ترقی کے راستے بھی کُھلیں گے اور اُمید کی جاسکتی ہے کہ پاکستان بھی اپنے موجودہ مسائل سے نکل آئے گا سو جس طرح سے دونوں ملکوں کی حکومتوں اور عوام میں مستقبل کے لئے ایک ہم آہنگی پائی جارہی ہے اسے پھلنے پھولنے کے مزید مواقع ملیں گے تو علم و اَدب اور فنونِ لطیفہ کے حوالے سے بھی قربتوں میں اضافہ ہوگا اوریوں رب کریم کی رحمت اور فضل سے پاکستان اور ترکی عالم اسلام کے لئے ایک روشن مثال کی شکل اِ ختیار کرسکیں گے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *