میچ برابر-امجداسلام امجد

میچ برابر-امجداسلام امجد

میچ برابر

جیسا کہ میں گزشتہ دو تین کالموں میں عرض کرچکاہوں کہ ٹانگ پر پلاسٹر کی وجہ سے مجھے کم از کم تین ہفتوں کے لئے گھر میں رہنے کا پابند کردیا گیا ہے اور یوں نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے درجنوں کے حساب سے سیاسی تجزیاتی پروگرام دیکھنے اور بھگتنے کا موقع ملا ہے (جن پروگراموں کے آخر میں آپ مزید کنفیوز ہو کر اُٹھیں اُن کے لئے بھگتنے سے بہتر اگر کوئی لفظ ہے تو وہ کم از کم میرے علم میں نہیں لیکن واضح رہے کہ یہ تاثر اس نوع کے تمام پروگراموں کے لئے نہیں ہے) وقت گزاری کا دوسرا ذریعہ انگلینڈ اور نیوزی لینڈ سے ہونے والی ٹیسٹ سیریز تھیں جو میرے کرکٹ سے دلچسپی کے تاریخی اور ذوقی پس منظر کے حوالے سے ایک نسبتاً بہتر وسیلہ تھا اب یہ اور بات ہے کہ انگلینڈ سے وائٹ واش اور کرکٹ بورڈ میں ہونے والی تبدیلیوں کے باعث اس میں لطف کی جگہ فرسٹریشن نے لے لی البتہ نیوزی لینڈ سے دونوں ڈرامیچوں کے درمیان جو اُونچ  نیچ اور دلچسپی قائم رہی اُس نے سیاست اور کھیل دونوں کے درمیان کچھ نئے رشتوں کی نشاندہی ضرور کی ہے میچوں کی درمیان کی ساری ٹینشن اپنی جگہ لیکن کھیل برابر ہوجانے کے بعد جس طرح دونوں ٹیموں کے تمام کھلاڑیوں نے ایک دوسرے سے ہاتھ ملائے اور ہارجیت کا فیصلہ نہ ہونے کے باوجود کھیل کو کھیل تک ہی محدود رکھا اورساری توجہ اگلے میچ کی طرف مرکوزکردی اس پر مجھے ایک جاپانی کہاوت بہت یاد آئی کہ ماضی کو کبھی مت بھولو مگر اسے ہمیشہ پیچھے رکھو آگے نہیں تاکہ تم مستقبل کوزیادہ بہتر بناسکو۔ اس موضوع پر مزید بات کرنے سے پہلے میں برادرِ عزیز عباس تابش کا ایک شعر آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتاہوں جس سے پتہ چلتا ہے کہ عشق کے کھیل کو بھی ڈرا یعنی بغیرکسی نتیجے کے چھوڑا جاسکتا ہے یعنی ہار اور جیت کے علاوہ ایک تھرڈ آپشن بھی ہوسکتی ہے۔

کیا ضروری ہے کہ ہم ہارکے جیتیں تابشؔ
عشق کا کھیل برابر بھی تو ہوسکتا ہے

اب ذرا نیوز ی لینڈ سے ہونے والے دوسرے ٹیسٹ میچ کے آخری دن کوذہن میں لایئے کھیل شروع ہوا تو سکور بورڈ پرصفر رنز اوردو کھلاڑی آؤٹ درج تھے بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ جس طرح بابراعظم نے کچھ عرصہ قبل آسٹریلیا کے خلاف چوتھی اننگزمیں 196رنز کی باری لے کر اِسی کراچی شہر میں میچ بچایا تھا آج اُس کا ری پَلے ہوگا جبکہ امام الحق کی عمدہ فارم اور شان مسعود کی مبینہ صلاحیت بھی اپناکام دکھائے گی مگر ہوا یہ کہ لنچ سے پہلے پہلے یہ تینوں صرف اسی رنز کے ٹوٹل پر واپس پویلین پہنچ گئے اب لے دے کر سرفراز احمد، سعود شکیل اور سلمان آغا بچے تھے کہ جو نیوزی لینڈ کی اس عمدہ بالنگ کے سیلاب کے آگے بند باندھ سکتے تھے کہ اس کے بعدکے تینوں کھلاڑی حسن علی، نسیم شاہ اور ابرار احمدکا شمار ماچس کی تیلیوں میں ہوتا تھا مگر پھر ہم نے دیکھا کہ وہ سرفراز احمد جسے چار برس سے بلاوجہ نظر انداز کیا جارہا تھا اس سیریز میں چوتھی بار یعنی ایک بار پھر نہ صرف خود دیوار بن کر کھڑا ہوا اور سنچری سکور کی بلکہ باقی دونوں ساتھیوں کو بھی اپنے تجربے سے مستفید کرتا رہا اور کھیل کو ایک ایسے موڑپر لے آیا کہ واضح شکست کی جگہ متوقع فتح نے لے لی مگر ایک بار پھراس کھیل کی بے یقینی سامنے آگئی اور ان تینوں کے آؤٹ ہونے کے باوجود آخری وکٹ نے میچ بچا لیا۔

 اب ایک طرف کھیل کے نشیب و فراز،کھلاڑیوں کی متوقع اور غیر متوقع پرفارمنس ایمپائرز کے متنازع فیصلے، میدان کے اندر اور باہر کی Tensionاپنی جگہ لیکن یہ بھی امرِ واقعہ ہے کہ نہ صرف کھیل برابرہوگیابلکہ نہ تو اس برابری میں کسی کوکوئی اعتراض ہوا اور نہ ہی کھلاڑیوں نے اس کے واقعات کودل سے لگا کر ایک د وسرے کے خلاف نفرتیں پال لیں۔


اب ظاہر ہے سیاست کے میدان کے اصول بھی مختلف ہیں اورکھلاڑی بھی اور اس میں ہار جیت کا تعلق تینوں زمانوں یعنی ماضی، حال اور مستقبل سے بیک وقت ہوتا ہے اس میں امپائر کے فیصلے کے خلاف تھرڈ امپائر سے رجوع بھی ممکن نہیں ہوتا کہ عام طورپر تھرڈ امپائر کی غیر جانبداری متنازعہ ہوتی ہے لیکن ایک سبق اس سے بہر حال حاصل کیا جاسکتا ہے اور وہ یہ کہ یہ کھیل بھی برابر چھوٹ سکتا ہے لیکن اس کیلئے شرط یہ ہے کہ نہ صرف تمام کھلاڑیوں کادرجہ برابر ہوبلکہ وہ ایک دوسرے سے اختلاف کے باوجود اس کو کمتری یا برتری کا مسئلہ نہ بنائیں۔

 ایک دوسرے کو برابر کی عزت دیں اوراپنے اختلاف کو افراد کے بجائے مسائل تک محدود رکھیں اگر ہر سیاسی پارٹی کامقصد عوام کی فلاح اور ملک کی ترقی ہے تو پھر جھگڑا کس بات کا ہے؟ یعنی زیادہ سے زیادہ طریقِہ کارفرق ہوسکتاہے جس پربحث کی جاسکتی ہے مگر ہمارے مہربان تومخالفین کے شجرہ نسب سے بات شروع کرکے اپنی پیش کردہ فردِ جرم پر بات کو ختم کردیتے ہیں سو ان سب دوستوں سے یہی استدعا ہے کہ وہ کرکٹ کے کھیل کے قواعد ہی سے کچھ سیکھنے کی کوشش کریں اور یادرکھیں کہ کسی زمانے میں کرکٹ کو سچ اور اخلاق کے معیار کی طرح دیکھا جاتا تھا یعنی کسی بات سے اختلاف کا اظہار یوں بھی کیا جاتا تھا کہ This is not Cricket۔آیئے ایک بار پھر سوچیں کہ کھیل کے برابر ہوجانے سے اُس کے کھیل ہونے کے سٹیٹس پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *