نظر آ لباسِ مجاز میں
مجاز کے پہلے بنیادی اور شائد واحد باقاعدہ مجموعے ”آہنگ“ اور اُس کے اضافوں کی شکل میں جو کچھ جمع کیا گیا ہے اور جس کا ایک رُوپ ”کلیاتِ مجاز“ کے نام سے نذیر بک بینک کی طرف سے 2019ء میں شا ئع کیا گیا۔ یہ وہی ایڈیشن ہی ہے جو اس وقت میرے سامنے ہے اور جس کے شروع میں سرورجاوید کے مبسوط مقالے ”مجاز۔۔۔مطربِ دلبراں ؔ“ اور آخر میں فیض صاحب،سجاد ظہیر، عصمت چغتائی، جاں نثار اختر، ڈاکٹر محمد حسن، حمیدہ سالم اور ڈاکٹر شاہین مفتی کے سات ایسے اہم مضامین بھی جمع کردیئے گئے ہیں جن کی مدد سے ایک عام قاری کومجازؔ سے متعلق بیشتر سوالوں کے معقول جواب تو مل جاتے ہیں مگر وہ دور جس میں وہ فن و فکر پر کام کرنے کے بجائے اپنے نام، غیر معمولی شہرت اور عملی طور پر ایک بے کار، بے مقصد اور دن رات شراب کے نشے میں ڈوبی زندگی گزار رہا تھا اور جس کے نتیجے میں آگے چل کر وہ مزید بے راہ اور منتشر ہوا۔ اس کے بارے میں ایسی معلومات کم کم ہی ملتی ہیں جن کی مدد سے اُس کے آشوب کو سمجھا اور یہ جانا سکے کہ کیسے دس بارہ برس کے اندر اندر وہ ستاروں کی گزر گاہوں کا مکین ممبئی کی سڑکوں پر مفلسی، بے چہرگی اور اپنی ہی آواز کی بے معنی بازگشت بن کر ایک رُوح فرما تماشے کی شکل اختیار کر گیا۔
جیسا کہ ہم نے دیکھا مجازؔ کی اُٹھان میں اُس کی فکر اور قدرے انوکھے شعری لحن کے جادُو نے جو رول ادا کیا اس کے پس منظر میں اتنا بہت کچھ چل رہا تھا جس کی اُسے تو کیا اُس دور کے بڑے بڑے مفکروں کو بھی ٹھیک سے خبر نہیں تھی لیکن یہ طے ہے کہ اُسے قارئین کا ایک ایسا گروہ ضرور ملا جو شاعری کو مشاعرے کی پُرلطف روائت کے علاوہ بھی دیکھنے اور سمجھنے کی اہلیت اور خواہش رکھتا تھا انگریزی کے نوجوان رومانٹک شعرا شیلے، بائرن اور کیٹس وغیرہ کو جو غیر معمولی شہرت ملی اُس میں یورپ کی تہذیب، مادی ترقی، انقلابی علوم اورہر سطح پر مضبوط ہوتے ہوئے معاشرے بھی اپنے اپنے انداز میں شامل تھے لیکن مجازؔ کے پیچھے صرف اُردو شعر کی عظیم کلاسیکی روائت اور آگے ایک نئی شکل بناتا ہوا وہ دور تھا جس میں ابلاغ کی نئی شکلیں طریقے اور ٹیکنالوجی نئے سے نئے رنگ تو بھر رہے تھے مگر اُس ذہین، خیال افروز اور اپنے وجود کو منوانے والے نغمہ سرا کی کمی تھی جو اُن باتوں کو موثر طریقے سے کہنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو جنہیں پہلی بار اظہار کا ایک ایسا راستہ مل رہا تھا جو اس سے پہلے ایک وہم، خواب اور دھندلکے کی صورت میں ہر دروازے کو بند کرتا چلا جارہا تھا آج جبکہ اس عمل میں تقریبا آٹھ دہائیاں گزر چکی ہیں عین ممکن ہے یہ نیا طرزِ اظہار ہمیں بہت عام، سادہ، دیکھا بھالا اور مانوس معلوم ہو اور یوں ہم شائد اس کی خوب صورتی اور نئے پن کی بھی ٹھیک سے داد نہ دے سکیں کہ اس دوران میں دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے جبکہ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے درمیان کی دنیا کم و بیش توایک خوابِ فراموش کی شکل اختیار کر چکی ہے لیکن ایک لمحے کے لئے اس اُلجھاؤ سے اُوپر اُٹھ کر مجازؔ کے ان شعروں کی فضا کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ایک بنے بنائے اور مقبول پیٹرن سے ہٹ کر کسی نئی شکل، رنگ یا ڈیزائن کو پیش کرنا کس قدر مشکل ہوتا ہے۔ ”مجبوریاں“ کے عنوان سے ”آہنگ“ کی ایک ابتدائی نظم میں وہ لکھتا ہے۔
کوئی نغمے تو کیا اب مجھ سے میرا ساز بھی لے لے
جو گانا چاہتا ہوں آ ہ میں وہ گا نہیں سکتا
وہ مجھ کو چاہتی ہے اور مجھ تک آ نہیں سکتی
میں اُس کو چاہتا ہوں اور اس کو پا نہیں سکتا
زباں پر بے خودی میں نام اُس کا آ ہی جاتا ہے
اگرپوچھے کوئی یہ کون ہے؟بتلا نہیں سکتا
کہاں تک قصہ آلامِ فطرت مختصر یہ ہے
یہاں وہ آنہیں سکتی وہاں میں جا نہیں سکتا
غور سے دیکھا جائے تو اختر شیرانی کی نظموں میں خواتین کے کچھ ناموں اور میراجیؔ کی میرا سین سے افلاطونی قسم کی محبت کے ذکر کے علاوہ اُس وقت کی اُردو شاعری میں ایک دیکھنے، سوچنے اور سمجھنے والی خاتون کا تصور نہ ہونے کے برابر تھا کہ اُس کا رول زندگی کے اس ڈرامے میں عملی طور پر مرد کرداروں کی خواہشوں کی تکمیل کے علاوہ کوئی تھا ہی نہیں سو ایسے میں جب ”کسی سے محبت ہے“ جیسی نظم سامنے آتی ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ مجازؔ کیا کہنے اور کرنے کی کامیاب کوشش کررہا تھا۔
بتاؤں کیا تجھے اے ہم نشین کس سے محبت ہے
میں جس دنیا میں رہتا ہوں وہ اُس دنیا کی عورت ہے
سراپا رنگ وبُو ہے پیکرِ حسن و لطافت ہے
بہشتِ گوش ہوتی ہیں گہرافشانیاں اُس کی
زباں پر ہیں ابھی تو عصمت و تقدیس کے نغمے
وہ بڑھ جاتی ہے اس دنیا سے اکثر اس قدر آگے
میری تخیل کے بازو بھی اُس کو چُھو نہیں سکتے
مجھے حیران کر دیتی ہیں نکتہ دانیاں اُس کی
اسی طرح نظم”بربطِ شکستہ“ کے کُل چار اشعار ہیں جس منظر کی لفظوں میں عکس بندی کی گئی ہے اُن کا انتخاب، ترتیب، مزاج، انداز اور بیانیہ سب کے سب ایک ایسی صورتِ حال کو پیش کر رہے ہیں جس میں دوسرا کردار یعنی خاتون بھی اپنی بات کو اُسی حُسنِ اعتماد کے ساتھ پیش کر رہی ہے جس سے ہر نیا امیج ایک نیا جہانِ معنی کھولتا نظر آتا ہے۔
اُس نے جب کہا مجھ سے اک گیت سنا دو نا!
سرد ہے فضادِل کی آگ تم لگادو نا!
کیا حسین تیور تھے کیا لطیف لہجہ تھا
آرزو تھی حسرت تھی حکم تھا تقاضا تھا
گنگنا کے مستی میں ساز لے لیا میں نے
چھیڑ ہی دیا آخر نغمہ وفا میں نے
یاد کا دُھواں اُٹھا ہر نوائے خستہ سے
آہ کی صدا نکلی، بربطِ شکستہ سے
یہ دو انسانوں کے درمیان وہ برابر کا رشتہ اور تعلق ہے جو یوں تو اس وقت کی بیشتر دنیا میں جاری و ساری تھا لیکن جس کا برصغیر جیسے غلام، پسماندہ، ڈرے ہوئے اور طبقاتی طور پر منقسم معاشرے میں اس طرح کُھل کر بیان کرنا اُس وقت کسی جادوئی کارنامے سے کم نہ تھا۔
Leave a Comment