وارث سے بندگی تک۔امجداسلام امجد

وارث سے بندگی تک۔امجداسلام امجد

وارث سے بندگی تک

یہ ہے تو اُسی کتاب کا نام جو ڈاکٹر شاہدہ رسول نے پاکستانی ٹی وی ڈرامے، اُس کی تاریخ اور ہماری قومی اور معاشرتی زندگی میں اس کے اثرات کے بارے میں قلم بند کی ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح ہمارے معاشرے کے کلچرل خدوخال کو نمایاں اور اُجاگر کرنے میں 1964ء سے لے کر 2010ء تک اس کا عمل دخل رہا ہے۔ 

400 صفحات پر مشتمل اس کتاب کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں سے چار کا براہ راست یا بالواسطہ تعلق میرے پی ٹی وی کے لکھے گئے 9عدد ڈرامہ سیریلز اور چھ دیگر پرائیوٹ ٹی وی چینلز کے لئے تحریر کئے گئے تھے کہ جن کی معرفت بالخصوص ہمارے فیوڈل معاشرے اور سرمایہ درانہ معاشرتی نظام کے مختلف پہلوؤں کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے جبکہ ان کہانیوں کے انتخاب اور تشکیل میں ہمارے بدلتے ہوئے نظامِ تعلیم، خواتین کی ترقی اور بین الاقوامی پسِ منظرمیں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ فوجی اور سیاسی قیادتوں کے سائے میں بدلتے ہوئے معاشرتی روّیوں کو سمجھنے اور سلجھانے کی کوشش کی گئی ہے لیکن اس سے پہلے کہ اس موضوع پر بات کو آگے بڑھایا جائے میں ایک بہت عجیب حسنِ اتفاق کی تفصیلات میں اپنے قارئین کو شامل کرنا چاہتا ہوں کہ میرے کہانی کاربننے اور اس کتاب کے لکھے جانے کے پیچھے ایک ایسی کہانی ہے کہ اگر یہ خود مجھ پہ نہ بیتی ہوتی تو شائد میرے لئے بھی یہ ایک طوطا مینا کی کہانی سے مختلف نہ ہوتی تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ میری ایک ہی سگی خالہ تھی جو وہ تین برس کی عمر میں آشوب چشم کے حوالے سے کسی نیم حکیم کے ہتھے چڑھ گئی جس نے پتہ نہیں اُس کی آنکھوں میں کیا لگایا کہ وہ ہمیشہ کے لئے اندھی ہوگئی اور تقریباً ساٹھ برس اس عالم میں گزار کر اپنے بنانے والے کے پاس واپس چلی گئی اس کی آواز بہت خوبصورت تھی اور وہ عام طور پر نعتیں پڑھتی رہتی تھی اس کی دوسری یاد جو بچپن سے میرے ذہن پرنقش ہوئی اس کا کہانیاں سنانے کا دلچسپ انداز تھا جس کی وجہ سے میری عمر کے بچے اس کے گرد جمع ہوجاتے تھے اور وہ توجہ کے اس دورانیئے کو بڑھانے کے لئے ان کہانیوں میں طرح طرح کے اضافے کرتی رہتی تھی میں اُس کی ان کہانیوں کے مستقل سامعین میں شامل تھا کہ شائد اس طرح خود میرے اندر کا چھپا ہوا اور کچا پکا کہانی کار بھی ایک طرح کی تربیت کے عمل سے گزر رہا تھا مجھے یاد ہے چھٹی جماعت میں میں مسلم ماڈل ہائی سکول لاہور میں داخل ہوا تو اس زمانے میں ہر کلاس میں ایک ہفتہ وار بزمِ ادب کا پیریڈ ہوا کرتا تھا جس میں بچے کہانیاں، نظمیں، گلوکاری، شعر اور لطائف سنایا کرتے تھے جس پر انہیں انعامات سے بھی نوازا جاتا تھا میری کوشش یہ ہوتی تھی کہ میں خالہ کی سنائی ہوئی اس کی کسی کہانی کو اپنی طرف سے مرچ مسالہ لگا کر اس طرح سے سناؤں کہ یہ ہم جماعتوں کو باقی آئٹمز کی نسبت زیادہ پسند آئے اس کے لئے میں انہیں اپنی عقل کے مطابق ایڈٹ اور ری ایڈٹ بھی کرتا رہتا تھا اب یہ کیسی عجیب بات ہے کہ میں نے کہانی کہنا ایک ایسے انسان سے سیکھا جو بینائی سے محروم تھا اور اب یہ کتاب جس خاتون یعنی ڈاکٹر شاہدہ رسول نے میرے ڈراموں کے حوالے سے لکھی ہے وہ بھی بینائی جیسی عظیم نعمت سے محروم ہے فرق صرف یہ ہے کہ جہاں خالہ کتاب، تعلیم اور سکول سے ساری عمر بیگانہ رہی وہاں شاہدہ رسول نے نہ صرف ایم اے اُردومیں ریکارڈساز کامیابی حاصل کی بلکہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے کے بعد یونیورسٹی کی سطح پر تدریس کے فرائض انجام دے رہی ہے اور جس مہارت، وسیع مطالعے اور کہانی اور کردار نگاری کی شاندار جزئیات کو اُس نے اپنی ایک عزیز شاگرد کی مدد سے قلم بند کیا ہے اس کی داد دینا تو بہت دُور کی بات ہے اُسے سمجھ سکنا بھی اپنی جگہ پرایک چیستان سے کم نہیں۔

گزشتہ40برس میں میرے ڈراموں اُن کے پلاٹس، کرداروں کی نفسیات اور مکالموں کی گہرائی اور معنویت پر اگرچہ بہت زیادہ اور اکثر صورتوں میں بہت اچھا لکھا گیا ہے مگر جس سطح پر ڈاکٹر شاہدہ رسول نے ان کی تفہیم اور تحسین کی ہے اس کی کوئی فوری مثال باوجود کوشش کے ذہن میں نہیں آرہی۔

ایسا سُلجھا ہو ا ذہن اور شفاف مطالعہ بلاشبہ کسی معجزے سے کم ہیں کہ صرف آواز کے وسیلے سے کہانی اور کردار کی ایسی گہرای تک رسائی تو بڑے بڑے علما اور نقادوں کو بھی کم کم ہی نصیب ہوئی ہے میں اُسے تقریباً دس بارہ برس سے جانتا ہوں اورہر بار اُس کی گفتگو سن کر یہ یقین کرنا بے حد مشکل ہوجاتا ہے کہ واقعی وہ بینائی جیسی نعمت سے محروم ہے اُس کا دل بہت بڑا ہے جو یریہ ظفر اُس کی محبوب شاگرد ہے اور یہ کتاب اُس بچی کی شب و روز محنت اور تعاون کے بغیر شائد ابھی اور بہت سا وقت لے جاتی اس کی خواہش تھی کہ وہ اُس کا نام ساتھی مصنف کے طور پر پرنٹ کرے مگر کچھ تکنیکی معاملات ایسے درپیش آئے کہ اُس کی خواہش کے باوجود ایسا ممکن نہ ہوسکا مگر جس محبت، فراخدلی اور احسان مندی کے ساتھ اس نے پیش لفظ میں اُس کی محبت اور تعاون کا شکریہ ادا کیا ہے وہ یقینا اُس کے سونے جیسے دل کا ہی ایک روپ ہے اس کتاب کے مندرجات اور مختلف ابواب کے بارے میں اِنشاء اللہ اگلے کالم میں تفصیل سے لکھوں گا فی الوقت صرف اس تصویر کی ایک جھلک دکھانے کے لئے اس کے مختلف حصوں کے ذیلی عنوانات درج کر رہا ہوں بلاشبہ یہ کتاب ٹی وی ڈرامے کی تاریخ کے ساتھ ساتھ میرے ڈراموں کا بھی ایک بے مثال تجزیہ ہے۔


۱۔ امجد اسلام امجد شخص و عکس
۲۔ ٹیلی وژن ڈرامہ فن اور روائت
۳۔ امجد اسلام امجد کے جاگیردارانہ تناظر میں تحریر کردہ ڈراموں کا سیاسی اور سماجی مطالعہ۔
۴۔ پاکستان کا سرمایہ داری نظام اور امجد اسلام امجد کے ڈرامے۔
۵۔ متفرق موضوعات۔


کورونا سے صحت یابی کے مراحل سے ربِ کریم کے کرم سے سفر جاری ہے انشاء اللہ اگلی اور آخری قسط میں باتیں زیادہ تفصیل سے ہوں گی۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *