کرکٹ، بحران اور جاوید میانداد
حیرت کی بات ہے کہ کرکٹ پاکستانیوں کا مقبول ترین کھیل ہے مگر اس کے بارے میں عمومی معلومات اور اخباری رپورٹوں سے قطع نظر بہت کم لٹریچر دستیاب ہے جبکہ صرف انگلینڈ میں ہی ہر سال اس سے متعلق سینکٹروں کتابیں لکھی جاتی ہیں جن میں کرکٹ کی تاریخ، واقعات، مختلف سیریز، شخصیات اور کھلاڑیوں کی زندگی اور کارناموں سے متعلق کتابیں شامل ہیں جن میں سے بیشتر ان کی خود نوشت سوانح عمریوں یا یادداشتوں کی شکل میں ہوتی ہے البتہ چند برس قبل تک ہمارے یہاں بھی سپورٹس ٹائمز ریاض منصوری کے کرکٹر اور منیر حسین مرحوم کے ”اخبارِ وطن“ کی شکل میں کچھ رسائل ضرور پابندی سے چھپا کرتے تھے شعر و ادب کی دنیا میں بھی کبھی کبھار اس موضوع پر کچھ بات ہوجاتی تھی(مجید امجد مرحوم کی مشہور نظم ”آٹوگراف“ کا پس منظر 1954 میں اوول کی تاریخی فتح کے حوالے سے اُبھرنے والے کردار ”فضل محمود“ اور اس کی غیر معمولی مقبولیت ہی ہے) لیکن اب بہت دنوں سے اخبارات کے روائتی سپورٹس پیج سے قطع نظر تحریر کی شکل میں اس کا ذکر خال خال ہی کہیں نظر آتا ہے ایسے میں محمد سجاد خان کی 376 صفحات پر مشتمل کتاب ”جاوید میانداد۔کرکٹ کا فیلڈ مارشل“ کی اشاعت یقینا ایک قابلِ توجہ خبر کی حیثیت رکھتی ہے مزید لطف اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اس مصنف کی اس کتاب سے پیشتر نہ تو کوئی تحریر سامنے آئی ہے اور نہ ہی شائد ان کے قریبی رفقا کے علاوہ کسی کو اُن کے کرکٹ اور بالخصوص جاوید میانداد سے اس گہرے قلبی لگاؤ کا علم تھا کتاب کے بیک ٹائٹل پر درج مصنف کے تعارف سے پتہ چلتا ہے کہ اُن کا آبائی تعلق خیبر پختونخواہ کے علاقے صوابی سے ہے وہ کراچی کے علاقے لیاری میں پیدا ہوئے اور وہیں سے میٹرک کرنے کے بعد کراچی شپ یارڈ میں بطور اپرنٹس ٹریننگ کے بعد ملازمت حاصل کی اور گزشتہ 29برس سے پاکستان نیوی ڈاک یارڈ میں خدمات سرانجام دینے کے دوران پرائیوٹ طور پر بی اے کیا اور جاوید میانداد کی محبت نے اُن سے یہ کتاب لکھوا کر انہیں اس قابل کیا ہے کہ ان کا نام صرف کرکٹ کے موضوع پر لکھنے والوں کی فہرست ہی میں شامل نہیں ہوا بلکہ یہ اُن کی محنت، صلاحیت اور کارکردگی کا ایک ایسا ثبوت ہے جس کے حوالے سے اُن کا نام ہمیشہ محبت سے یاد کیا جائے گا۔
اس کتاب میں جاوید میانداد کی شخصیت کارناموں، ریکارڈز اور کھیل کے میدان میں اس سے منسوب مختلف واقعات پر بات کی گئی ہے جو یقینا شاندار بھی ہیں اور تاریخ ساز بھی لیکن ایک بات جو اس کی شخصیت کے حوالے سے بار بار سامنے آتی ہے وہ اس کا ”مردِ بحران“ ہونا ہے کہ یوں تو پہلی اننگز سے ریٹائرمنٹ کے لمحے تک جاوید میانداد کے قائم کردہ ریکارڈ اور کارنامے ایک سے بڑھ کر ایک ہیں لیکن اس کے اصل جوہر مشکل اور امتحانی صورتِ حال ہی میں زیادہ آب و تاب سے نمایاں ہوتے ہیں نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے کرکٹ بورڈز نے اپنی اپنی ٹیموں کے پاکستان سے طے شدہ دورے منسوخ کرکے کرکٹ کی دنیا کو جس بحرانی صورتِ حال سے دوچار کیا ہے ا س کے حوالے سے جاوید میانداد کے اس کردار کی اہمیت اور زیادہ بڑھ گئی ہے کہ جس طرح وہ کھیل کے میدان میں ہر ایسی صورتِ حال کا مردانہ وار مقابلہ کرتا اور اس کا حل نکالتا تھا بدقسمتی سے ہمارے آج کے حکومتی ترجمان اس صلاحیت سے یکسر محروم ہیں رمیز راجہ کو میں اس فہرست میں اس لئے شامل نہیں کروں گا کہ وہ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کے طور پر تو یقینا جوابدہ ہے مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ اس کے اختیارات سنبھالنے سے قبل ہوچکا تھا البتہ اس ضمن میں میں جاوید میانداد اور اُس جیسے چند غیر معمولی کارکردگی کے حامل سابق کھلاڑیوں سے مشاورت بلاشبہ کرکٹ بورڈ کو موزوں ترین لائحہ عمل مرتب کرنے میں بہتر معاونت فراہم کرسکتی ہے۔
جہاں تک اس کتاب کے ذیلی عنوان یعنی ”کرکٹ کا فیلڈ مارشل“ کا تعلق ہے تو اسے آپ مصنف کی جاوید میانداد سے عقیدت کا ایک عوامی اظہار سمجھ سکتے ہیں کہ یہاں فیلڈ مارشل کا خطاب، طاقت،عظمت اور درجے کی بلندی کے استعارے کے طور پر استعمال ہوا ہے ا ورا س کی گواہی کے حوالوں سے یہ پوری کتاب بھری پڑی ہے مصنف نے اسے سات حصوں میں تقسیم کرکے اس طرح سے تحریر کیاہے کہ ہر حصے میں بیسیوں ذیلی عنوانات بھی ا ہم واقعات کی نشاندہی کرتے رہتے ہیں اور یوں پاکستان کرکٹ کی تاریخ اور کرکٹ کی دنیا کے اہم واقعات کے ساتھ ساتھ جاوید میانداد اس کی زندگی، کارنامے، ریکارڈ اور اس سے متعلق دلچسپ باتیں بھی ا یک سلسلہ وار کہانی کی صورت میں سامنے آتی چلی جاتی ہیں مثال کے طور پر پہلے باب”مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ“ میں جہاں جاوید میاندادکی چھوٹی عمر کے بڑے کارناموں کو بیان کیا گیا ہے وہاں 50 ذیلی عنوانات کے تحت کرکٹ کے میدان میں اس کے پہلے پندرہ برس کے تقریباً تمام اہم واقعات کو بھی اس کے حوالے سے ایک جگہ پر جمع کر دیا گیا ہے ا سی طرح باب دوئم کا ذیلی عنوان ”پاکستان کرکٹ کے سنہری دور کا آغاز“ باب سوئم”پاکستان فتوحات کی جانب گامزن“ باب چہارم”پاکستان عالمی چیمپئن بن گیا“باب پنجم”کرکٹ کا روشن ستارہ“ مزید کارنامے انجام دینے کی خواہش دل میں لئے غروب ہوگیا“باب ششم ”کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا“ اور آخری یعنی باب ہفتم ”اعداد و شمار کی روشنی میں جاوید میانداد کے مکمل کرکٹ ریکارڈ کا احاطہ کرتا ہے۔انضمام الحق، محمد یوسف اور یونس خان کو اگر جاوید میانداد کے بعد اور حنیف محمد کو اس کے پیش روؤں کی صف میں رکھا جائے تو اس کے ہم عصروں میں ہمیں ظہیر عباس، ماجد خان، سلیم ملک اور سعید انورکے نام نظر آتے ہیں جنہیں پاکستان کے آل ٹائم بڑے بیٹسمینوں میں شمار کیا جاسکتا ہے بلاشبہ یہ سب بڑے کھلاڑی تھے اور ان کے ناموں کے ساتھ بہت سے ریکارڈ وابستہ ہیں مگر محمد سجاد خان کی ا س کتاب کو پڑھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچنا بہت آسان ہوجاتا ہے کہ صلاحیت، پرفارمنس، ریکارڈز، اعداد و شمار اور کارناموں کے اعتبار سے ان سب میں بھی جاوید میانداد کا نام پہلے نمبر پر آتا ہے جس کی تفصیل اگرچہ ”جاوید میانداد عظیم کیوں“ والے مضمون میں وضاحت سے بیان کردی گئی ہے لیکن میں یہاں ان چند باتوں کا ایک ساتھ مختصر ذکر کرنا چاہوں گا جن سے کرکٹ سے کم دلچسپی رکھنے والے بھی جان سکیں کہ تقریبا 22 برس پر محیط اپنے انٹرنیشنل کیرئیر کے دوران اس نوجوان نے کیا کچھ کیا تھا جو اپنی مثال آپ ہے۔ واضح رہے کہ یہ سب معلومات اسی کتاب کے ذیلی عنوانات سے مرتب کی گئی ہیں۔
(1) انڈر 19 مین آف دی ٹورنامنٹ
(2) کم عمری میں ٹرپل سنچری کا ریکارڈ
(3) پہلے ہی ٹیسٹ میں سنچری کا عالمی ریکارڈ۔
(4) میانداد کی ڈبل سنچری 47 سالہ ریکارڈ رتوڑ دیا۔
(5) ٹیسٹ کرکٹ میں ایک ہزار رنز بنانے والا کم عمر کھلاڑی۔
(6) زخمی انگلی کے باوجود گیری سوبرز کا عالمی ریکارڈ توڑ دیا۔
(7) رچرڈ ہیڈلی کی ایسی پٹائی پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی ۔
(8) 2000 رنز بنانے والے کم عمر کھلاڑی کا عالمی ریکارڈ۔
(9) سنچری بنانے والا کم عمر کپتان۔
(10) میانداد نے کاؤنٹی کرکٹ کا 30 سالہ پرانا ریکارڈ توڑ دیا۔
(11) آسٹریلیا کو اننگز کی شکست سے دوچار کرنے والا پہلا پاکستانی کپتان۔
(12) میانداد کرکٹ کا چھلاوا ہے۔
(13) بھارت کے خلاف سب سے زیادہ رنز بنانے والا کھلاڑی۔
(19) ون ڈے میچز میں تیز ترین سنچری کا عالمی ریکارڈ قائم۔
(15) وزڈن کرکٹر آف دی ایئر۔
(16) ٹیسٹ رینکنگ میں نمبر ون بننے والا پہلا پاکستانی کھلاڑی۔
(17) پہلی، پچاسویں اور سوویں اننگ میں سنچری بنانے والا دنیا کا واحد کھلاڑی۔
(18) میانداد پاکستان کا بریڈ مین ہے۔
(19) کرکٹ کی تاریخ کا مشہور چھکا۔
(20) اگر میں کسی کو انگلش ٹیم میں شامل کرسکتا تو وہ میانداد ہی ہوتا۔
(21) پاکستان کی ٹیم عالمی رینکنگ میں نمبر ون ہوگئی۔
(22) آٹھ ملکوں کے خلاف سنچری بنانے والا دنیا کا پہلا کھلاڑی۔
(23) میانداد کی تین خوبیاں کسی اور بیٹسمین میں اکٹھی نظر نہیں آئیں۔
(24) پانچ ملکوں کے خلاف ڈبل سنچری بنانے والا دنیا کا پہلا کھلاڑی۔
(25) 5000رنز بنانے والے دنیا کے پانچویں کھلاڑی۔
(26) سیمی فائنل میں میانداد نے استاد کا کرداد ادا کیا۔
(27) پاکستان عالمی چیمپئن بن گیا۔
(28) جاوید میانداد کرکٹ کا فیلڈ مارشل۔
(29) انگلش تاریخ کا سب سے بڑا انعام۔
(30) کیلنڈر ایئر میں سب سے زیادہ رنز بنانے والا کھلاڑی۔
(31) میانداد سکول آف بیٹنگ۔
(32) چھ ورلڈ کپ کھیلنے و الا دنیا کا پہلا کھلاڑی۔
اس شخص کے اعزازت کی فہرست ابھی بہت لمبی ہے مگر میں اس کے اس ہونہار عقیدت مند محمد سجاد خان کو اس کتاب کی تحریر پر مبارکباد اور اس کی محنت کی داد کے ساتھ اس کالم کو ختم کرتا ہوں کہ اس طرح کی کتابیں زیادہ سے زیادہ لکھی جانی چاہییں تاکہ ہمارے ہیروز کو نہ صرف ان کی زندگی میں خراجِ تحسین پیش کیا جائے بلکہ ان کی مثال سے نئی نسل کو وہ ہمت حوصلہ اور تحریک بھی ملے جس سے نئی منزلیں سر ہوں اور نئے ہیروز سامنے آئیں۔
Leave a Comment