گرمی سہی مزاج میں
میں بہت کوشش کرتا ہوں کہ سیاست، سیاست دانوں اور سیاسی حوالوں سے ہٹ کر علم، تعلیم، فلسفے، تاریخی شعور، معاشرتی مسائل اور شعرو ادب تک اپنی بات کو محدود رکھوں مگر بدقسمتی سے سیاست کا اُڑایا ہو اغبار کچھ ایسا ہے کہ اس سے باہر کی طرف کی ہر کھڑکی متاثر ہورہی ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کو اس کے درمیان میں سے ہی باقی چیزوں کو دیکھنا پڑتا ہے ہماری اسمبلیاں ہوں، الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا یا سیاستدانوں کے بیانات کوئی جگہ ایسی نہیں بچی جہاں اب لوگ شرافت، تحمل اور تمیز سے بات کرتے ہوں۔
گالی گلوچ، تضحیک، ناموں کو بگاڑ کر لینا اور مخالفین کے لیئے گھٹیا اور ہتک آمیز زبان کا استعمال ایک معمول کی بات بن چکا ہے اور اس حمام میں سب ننگے ہیں رہی یہ بحث کہ پہل کس نے کی اور ردَّعمل کا اظہار کس کی مجبوری اور ضرورت تھی اسے اب ایک تماشا بنا دیا گیا ہے کچھ عرصہ قبل تک خواتین اس کھیل سے عموماً دُور اور فاصلے پر رہتی تھیں مگر اب اُن کی زبانیں مردوں سے بھی زیادہ تیز اور کاٹ دار ہوچکی ہیں اور بقول انور مسعود مائیک اور کیمرہ دیکھتے ہی ان کی آنکھوں میں خون اُتر آتا ہے سیاسی جماعتوں کے باقاعدہ ترجمانوں کی حد تک تو یہ بات سمجھ میں آتی تھی کہ انہیں بھیجا ہی صرف مخالفین پر الزام تراشی اور بگاڑ کے لیئے جاتا ہے اور چونکہ اُن کے پاس عام طور پر اینکر کے سوال کا جواب نہیں ہوتا یا وہ بوجوہ اُسے دینا نہیں چاہتے تو وہ فوراً پینترا بدل کر اُن الزامات کی گردان شروع کر دیتے ہیں جن کا موجودہ مسئلے سے دور کا تعلق بھی نہیں ہوتا اور اگر کبھی اُن کے لیئے ندامت کو سنبھالنا مشکل ہوجائے تو وہ ایسی دشنام طرازی پر اُتر آتے ہیں کہ گلی محلے میں لڑنے والے جاہل اور اَن پڑھ بھی کانوں کو ہاتھ لگانے پر مجبورہوجاتے ہیں سیاسی جلسوں میں مخالفین پر تنقید دنیا بھر میں ہوتی ہے اسی طرح ایک دوسرے کے خلاف بیانات جاری کرنا بھی اس بے فیض کھیل کا حصہ ہیں مگر جس طرح غلط بیانی کی بنیاد پر ہمارے یہاں لوگوں کو تشدّد اور دشمنی پر اُبھارا جا رہا ہے اور اس ضمن میں جس طرح کی زبان اختیار کی جارہی ہے وہ کسی دو دھاری تلوار سے کم نہیں کہ اس کے فروغ کا عملی نتیجہ ایک ایسی فضا ہے جس میں ہر چیز گھوم کرخود کہنے والوں کی طرف واپس آئے گی اور پھرکسی کی عزت بھی محفوظ نہیں رہ سکے گی۔
اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ سوشل میڈیا ہو یا جلسے کے شرکا جو باتیں بطور الزام کسی مخالف کے بارے میں کی جاتی ہیں بالکل وہی کہنے والوں پر بھی صادق آتی ہیں سو جو گالی ایک طرف کے لوگ پھیلاتے ہیں وہی دوسری طرف سے واپس کردی جاتی ہے اور اس کردار کشی کی رَو میں بہت سی ایسی باتیں مفروضوں سے حقائق کی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور پھر ایک ایسا طوفانِ بد تمیزی شروع ہوتا ہے جس میں کسی کی دستار بھی سلامت نہیں رہتی اور اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ نوجوان اور ناتجربہ کار مگر جذباتی نسل اُس تہذیب سے نا آشنا ہوتی چلی جاتی ہے جس میں چھوٹے بڑے کی تمیز اور گفتگو کے آداب اُن کو معاشرے کی طرف سے ملا کرتے تھے یا درکھنے والی بات یہ بھی ہے کہ جب آپ اپنے کسی حامی کو مخالفین کی توہین پر اُکساتے ہیں تو یہ بد تہذیبی اُن کی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے اور کسی بھی معمولی سے اختلاف پر خود اُکسانے والے اس کا شکار بن جاتے ہیں اس سے قطع نظر کہ یہ سلسلہ کب شروع ہوا اور اس میں شامل لوگ اس ضمن میں اپنے اپنے طرزِ عمل کی کیا وضاحت دیتے ہیں امرِ واقعہ یہی ہے کہ اس فضا کو پیدا کرنے میں سب کے سب برابر کے حصہ دار ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرے کی طرف سے کوئی ضابطہ اخلاق طے کیا جائے اور پھر پریس میڈیا بلکہ سوشل میڈیا سے بھی اس کی مکمل پابندی کرائی جائے کہ ہر طرح کی توہین آمیز اور فساد پرور خطاب کا عملی طور پر بائیکاٹ کیا جائے کہ یہ سٹیجوں پر کیئے جانے والے دھماکے کسی بھی وقت عوام کی سطح پر بارودی دھماکوں کی شکل اختیار کرسکتے ہیں سیاسی لیڈرز ایک د وسرے پر کیچڑ اُچھالنے کے بجائے اپنے منشور، اصلاحات اور تعمیری پروگرام کی بات کریں، ریاست کے معاملات کو حکومت کی ترجیحات اور مسائل سے الگ رکھ کر حل کریں اور قومی مسائل مثلاً معیشت، آزادی، ترقی، غربت، جہالت اور خارجی تعلقات کی نفی سے دُور رکھ کر مل جل کر حل کریں۔ اب اگر ہمارا سارا وقت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے ا ور بے عزت کرنے میں صرف ہوگا تو یہ اتفاق کیسے صورت پذیر ہوگا؟
اس ضمن میں جو چند اچھی باتیں میں نے بزرگوں سے سُنی اورپڑھی ہیں انہیں اس اُمید پر دہرائے دیتا ہوں کہ ان کی رُوح کو سمجھنے کے بعد کوئی ذی ہوش آدمی وہ زبان استعمال نہیں کرسکتا جو ہماری نوجوان نسل کو مسلسل گمراہ کر رہی ہے۔
”علم و آگہی“ طے کرتے ہیں کہ محفل میں کیا کہنا ہے۔ ”مہارت“ طے کرتی ہے کہ کیسے کہنا ہے ”طرزِ عمل“ طے کرتا ہے کہ کس قدر کہنا ہے ا ور ”دانش مندی“ طے کرتی ہے کہ کہنا بھی ہے یا نہیں اگر دل میں کھوٹ ہو تو دُعا، عطا اور محبت و خلوص راستہ بدل لیتے ہیں کچھ لوگ قسمت کی طرح ہوتے ہیں جو دعاؤں سے ملتے ہیں اور کچھ لوگ دعا کی مانند ہوتے ہیں جو انسان کی قسمت ہی بدل دیتے ہیں۔“
”بے بس انسان کا سجدہ ہی اس کی بے بسی کا علاج ہے، نصیحت کرنے و الا اگر مخلص نہ ہوتو نصیحت بھی ایک پیشہ ہے۔ لوگ دوست کوچھوڑ دیتے ہیں مگر بحث کو نہیں چھوڑتے دُور سے نظر آنے والے مناظر قریب سے ویسے دکھائی نہیں دیتے“
”دعا کے مقام پر دعا دینا اپنی جگہ مگر بددعا کے مقام پر دعا دے جانا بڑی فقیری ہے اگر آپ کو سجدے کی توفیق مل رہی ہے تو دنیا میں آپ سے زیادہ خوش قسمت اور امیر شخص اور کوئی نہیں۔ کچھ دروازے اللہ تبارک و تعالیٰ ہماری حفاظت کے لیئے بند کرتا ہے کیونکہ وہ راستے ہمارے لیے بہتر نہیں ہوتے“۔
Leave a Comment