پوری تصویر
بچپن میں کہیں پڑھا تھا کہ ایک آدمی روتا پیٹتا حکیم کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ کل سے اس کے پیٹ میں شدید تکلیف ہے اور کسی پَل چین نہیں پڑ رہا حکیم صاحب نے پوچھا کہ کھایا کیا تھا؟ جواب ملا کہ جلی ہوئی روٹی کھالی تھی حکیم صاحب نے ایک شیشی سے ڈراپر میں کوئی ما ئع دوائی بھری اور کہا کہ آنکھیں کھولو تاکہ میں دوائی ڈال سکوں، مریض نے حیرت سے کہا مگر حکیم صاحب خرابی تو میرے پیٹ میں ہے آنکھوں کا اس سے کیا تعلق ہے؟ حکیم نے مسکرا کر کہا اصل خرابی تمہاری آنکھوں میں ہے جن کو جلی ہوئی روٹی نظر نہیں آئی ا ور اب تم اس کو کھا کر آسمان سر پر اُٹھا رہے ہو۔
بدقسمتی سے آج کل ہمارا میڈیا اور معاشرہ بھی کچھ ا س قسم کا کام کر رہے ہیں کہ اصل خرابی کہیں اور ہوتی ہے اور ہم اُس کی وجہ کہیں اور تلاش یا بیان کر رہے ہوتے ہیں مثال کے طور پر آج کل مینار پاکستان، گریٹر اقبال پارک یا کچھ اور پبلک مقامات پر خواتین سے کی جانے والی بعض شرمناک حرکتوں اور واقعات کا بہت ذکر کیا جارہا ہے اور اس کے حوالے سے نوجوان نسل اور اس کی تربیت کی خامیوں پربہت سخت تنقید کی جارہی ہے بلاشبہ یہ دونوں باتیں اپنی جگہ پر صحیح اور انتہائی قابلِ مذّمت ہیں لیکن یہ اس ساری صورت حال کی تصویر ہیں اس کا حل نہیں اس طرح کم عمر بچیوں سے جنسی تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات اور اس کے ذمہ دار کرداروں کے پس منظر کے حوالے سے بھی جن وجوہات اور ماحول پر بہت زور دیا جارہا ہے وہ بھی زیادہ تر یکطرفہ نا مکمل اور قیاسی ہیں کہ اصل مسئلہ اس سے کہیں زیادہ گہرا،، پیچیدہ اور وسیع ہے فوری جذباتی ردِّعمل اور اشتعال کی حدتک گرفتاریاں، مقدمے، سخت ترین سزاؤں کے تقاضے ا ور انتطامیہ کی غفلت پر تنقید درست سہی مگر اصل ضرورت اس طرح کے جذبات کو اُچھالنے سے زیادہ ان تمام تر محرکات کوسمجھنے اور اُن کی اصلاح کی ہے جن کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا ا ور ہور ہاہے
14اگست سے لے کر اب تک روزانہ رات کو مختلف چینلز کے تقریباً تمام ٹاک شوز میں ان واقعات پر بات کی جاتی ہے جس میں یہ چند باتیں بار بار دوہرائی جاتی ہیں کہ
۱۔ اس واقعے میں شامل تمام لوگوں کو عبرت انگیز سزائیں ملنی چاہییں۔
۲۔ خواتین کے حقوق کے ساتھ ساتھ اُن کی اپنی حفاظت کو بھی یقینی بنایا جائے۔
۳۔ خواتین کو بھی مردوں کی طرح ہر قسم کی آزادی ہونی چاہیئے۔
۴۔ والدین، معاشرہ اور سکول ماضی کی طرح نئی نسل کی تربیت میں اب اپنی ذمہ د اریاں ادا نہیں کر رہے جس کی وجہ سے وہ اخلاقی اقدار سے دُور ہوتی جارہی ہے۔
۵۔ ٹی وی چینلز کے بیشتر ڈرامے نوجوان نسل کو ذمہ داری اور اخلاقیات سے دُور اور سِفلی جذبات کو فطری اظہار کے طور پر پیش کرتے ہیں جس کی وجہ سے رشتوں کا حسن اور پاکیزگی ماند پڑتے جارہے ہیں۔
۶۔ سوشل میڈیا بالخصوص ٹک ٹاک ٹائپ ایپس آزادی اظہار کے نام پر نوجوانوں میں ایک ایسے جارحانہ روّیئے کو فروغ دے رہے ہیں جس سے لمحاتی مسرت اور نام نہاد تھرِل کا تصور بنیادی معاشرتی اور اخلاقی اقدار پر حاوی ہوگیا ہے۔
۷۔ اسلام پر دے کی نوعیت اور خواتین کے حقوق کے بارے میں کیا کہتاہے؟
۸۔ عمران خان یا کسی ا ور کو خواتین کے لباس یا کم لباسی پر تنقید کا کوئی حق نہیں۔
۹۔ مدرسوں کے نظا م میں موجود جنسی گھٹن طلبہ اور اساتذہ دونوں میں بے راہ روی کا باعث بن رہی ہے۔
۱۰۔ انٹرنیٹ کی وجہ سے پورنوگرافی اور عمر کی قید سے بالاتر ہر قسم کی معلومات تک براہ راست اور بیشتر صورتوں میں گمراہ کن رسائی نے بھی حالات کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔
یہ ساری باتیں اپنی جگہ پر صحیح ہیں اور ان میں کچھ اور کا اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم ان سب باتوں کو ایک ساتھ سامنے رکھ کر اس صورتِ حال کو سمجھنے کے بجائے ا س کے کسی چند ایک پوائنٹس کو حرفِ آخر قرار دے دیتے ہیں اور یوں ان کے گرد گھومتے چلے جاتے ہیں میں نے اس فہرست میں ایک اور قابلِ غور نکتے کا ذکر اس لئے نہیں کیا کہ اس سے پھر ایک نئی بحث شروع ہوجائے گی اور وہ یہ کہ ریگولر میڈیا پر کم کم مگر سوشل میڈیا پر بہت زیادہ نہ سہی تو چند ایک ایسی خواتین بھی سرگرمِ عمل ہیں جو ایڈونچر کے نام پر جان بوجھ کر نازک موضوعات پر غیر ذمہ دارانہ اور بعض اوقات اخلاق سے گری ہوئی زبان استعمال کرکے پہلے سے بد تہذیب اور بگڑے ہوئے نوجوانوں کو خود سے رابطے کے مواقع فراہم کرتی ہیں یہ ذکر اس لئے ضروری تھا کہ جس طرح ایک مچھلی پورے جل کو گندہ کرتی ہے اسی طرح یہ محدود گروہ بھی بہت بڑے بگاڑ کا خواہی نخواہی حصہ بن جاتا ہے۔
ا ب اگر تھوڑی دیر کے لئے میری اس گستاخی کو نظر انداز کر دیا جائے تو میں یہی عرض کروں گا کہ جزوی اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے اس سارے منظر نامے کو ایک پورے امتحانی پرچے کی طرح دیکھنے سمجھنے اور حل کرنے کی ضرورت ہے کہ خواتین سے روز افزوں اس بدسلوکی، لاقانونیت، افراتفری، بدنظمی اور اخلاقی اقدار کی پامالی میں یہ سب عوامل کسی نہ کسی طرح اور اپنی اپنی شدت اور پھیلاؤ کے اعتبار سے کارفرما ہیں یعنی اس کے علاج اور سدّباب کے لئے ہمیں والدین کی تربیت، معاشرے کی ذمہ د اری، نصابِ تعلیم دین سے آگاہی، میڈیا، حکومتی قوانین اور عدالتی نظام سب ہی شعبوں پر بیک وقت کام کرنا ہوگا لیکن یہ بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی کہ جب تک ہماری آبادی، غربت اور جہالت اسی طرح سے بڑھتی رہے گی اور ڈھائی کروڑ بچے سکول کی شکل د یکھے بغیر معاشرے کے پیداواری وسائل بلکہ مسائل کا حصہ بنتے ر ہیں گے ساحر لدھیانوی کا یہ مصرعہ ایک وارننگ کی طرح گونجتا رہے گا کہ ”بھوک تہذیب کے سانچے میں نہیں ڈھل سکتی“۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر شعبے سے متعلق اہلِ دل اور اہلِ نظر لوگ آگے بڑھیں اور مل بیٹھ کر اپنے حصے کا کام محنت ایمانداری اور خوش اسلوبی سے سرانجام دیں یہ کوئی پھوڑا نہیں جس سے سرجری کے بعد مرہم لگا کر ٹھیک کرلیا جائے یہ پورے جسم میں پھیلا ہوا ایک کینسرہے جسے اس سے نجات حاصل کرنے کے لئے پورے جسم کا علاج کرنا ہوگا۔ معاشرے بھی مشینوں کی طرح ہوتے ہیں کہ پرزوں کی مرمت کے ساتھ ساتھ انہیں اوور ہالنگ کی ضرورت بھی ہوتی ہے آیئے سب مل کر اس میں حصہ لیں کہ یہ معاملہ کسی ایک کا نہیں ہم سب کا ہے۔
Leave a Comment