مسافر
قربت،اپنائیت،، دوستی اور یگانگت کی خوبیاں اور فائدے اپنی جگہ مگر اس کا ایک الحاقی قسم کا نقصان بھی ساتھ ساتھ چلتا رہتا ہے کہ دوست نہ چاہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے متعلق بہت سی باتوں اور تقاضوں کو اس جوشِ محبت کی روائی میں for granted لینے لگ جاتے ہیں۔ اب مثال کے طور پر اپنے چند اسفار پر مشتمل برادرعزیزسعود عثمانی کی اس کتاب ”مُسافر“ ہی کو لے لیجئے جو مجھے سعود نے 13 اپریل 2021ء کو دی تھی اور جسے میں نے اسی ہفتے میں پڑھ تو لیا تھا لیکن اُس پر کالم یا مضمون کی صورت میں کچھ لکھ نہ سکا کہ ذہن کے کسی کونے میں یہ خیال ارادے کی شکل میں موجود تھا کہ یہ تو گھر کی بات ہے کسی وقت بھی ہوجائے گی۔
اتفاق سے گزشتہ تین چار روز سے جب بھی فیس بک پر نظر ڈالنے کا موقع ملا آنکھ کے سامنے برادر مُلک ترکی کے مناظر اور کانوں کو متوجہ کرتی ہوئی سعود کی مخصوص خوبصورت آواز نے ضرور روکا کہ اس کی رننگ کمنٹری اور دکھائے جانے والے مناظر دلچسپ بھی تھے اور پُر لطف بھی کہ صوتی اور بصری سفر نامے کی یہ شکل اس اہتمام کے ساتھ اور اس طرح سے پہلے کبھی نظر سے نہیں گزری تھی اور یوں اس احساس نے شدّت پکڑلی کہ ”مسافر“ پر بات کرنے میں تاخیر کچھ زیادہ ہی ہوگئی ہے سعود سے یوں تو میرے بزرگوں اور بعد میں انور مسعود کی معرفت سے کئی طرح کے ذاتی رشتے ہیں لیکن یہ سب اُس وقت اضافی اور ثانوی ہوجاتے ہیں جب بات اس کی شاعری یا کسی اور ادبی طرز ِ اظہار کی آتی ہے کہ اُس نے نظم اور نثر دونوں اصناف میں ایسا قابلِ قدر دقیع اور وسیع کام کیا ہے جو اب تعارف کی حدوں سے گزر کر اُس کی پہچان بن چکا ہے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں اس کا تعلق ایک دینی اور علمی خانوادے سے ہے اور اس کی شخصیت کی تربیت میں ادبی ذوق، مطالعہ، تخلیقی صلاحیت اور کردار کے تنظیم کا بہت سا حصہ ورثے میں بھی ملا ہے ا س کے چچا محمد تقی عثمانی کا شمار دورِ حاضر کی سب سے اہم، نیک نام اور سند کی حیثیت رکھنے والی محدود جماعت کی پہلی صف میں ہوتا ہے ”مسافر“ کے آغاز میں اُن کی ایک مختصر تحریر ”ادبی شہ پاروں کا گلزار“ کے عنوان سے شامل ِ اشاعت کی گئی ہے وہ لکھتے ہیں۔
”سعود عثمانی کی شاعری کا سِکّہ تو ذہن پر اُس وقت سے بیٹھا ہوا ہے جب سے انہوں نے شعر کہنے شروع کئے لیکن اُن کی نثر کے موتی کم سے کم میرے سامنے پہلی بار اس سفر نامے کے مطالعے کے دوران آئے ادبی شہہ پاروں کے اس گلزار میں زبان کی گھلاوٹ بھی ہے، مشاہدے کی وسعت اور گہرائی بھی تشبیہات اور استعماروں کا حسن بھی ہے، زیرِ نظر مقامات کی منظر کشی بھی اور اُن کے بارے میں تاریخی جغرافیائی معلومات بھی ہیں جو خشک لیکچرکے بجائے دھیمے لہجے میں پڑھنے والوں کو اس طرح باخبر کرتی ہیں کہ اُسے کسی خشک بوجھ کا احساس نہیں ہوتا اور پھر اس شگفتہ تحریر کے دوران باتوں باتوں میں وہ سنجیدہ حقائق بھی ہیں جو اچانک سامنے آتے اور قاری کو سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں“۔
اگرچہ میرے نزدیک سعود عثمانی جیسے مستند لکھاری کو کسی رسمی تعارف یا تعارف کی ضرورت نہیں ہوتی پھر بھی ڈاکٹر خورشید رضوی، مستنصر حسین تارڑ اور ہارون رشید جیسے ماہرینِ فن اور پارکھانِ ادب کا اس کی نثر کو یہ خراج تحسین پیش کرنا کوئی معمولی بات نہیں کہ ایسے غیر معمولی لوگوں سے داد لینے کے لئے آپ کو سب سے پہلے اپنے آپ کو ”غیر معمولی“ ثابت کرنا پڑتا ہے۔
336صفحات پر مشتمل اس سفری رُودادوں کے مجموعے میں پاکستان کے علاوہ چھ ممالک ہندوستان، ترکی، ایران، یوکے، امریکہ اور تھائی لینڈ کے مختلف اسفار کو ایک جگہ جمع کر دیا گیا ہے جن میں سے کچھ سفر ایسے ہیں جن میں میں بھی اس کا شریکِ سفر تھا سو میری گواہی صرف قاری ہونے تک محدود نہیں بلکہ میں عملی طور پر اس کتاب کے بعض واقعات میں بطور کردار بھی شریک ہوں لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ سعود کا بیشتر بیانیہ سامنے آنے والے مناظر، اُن کی کیفیات، تفصیلات اور تاریخی پس منظر کے گرد ہی گھومتا رہتا ہے یعنی اگر سفر یا زندگی کو ایک ڈرامہ تصور کیا جائے تو اس کی توجہ واقعات اور کرداروں کی نسبت اُس کے بدلتے ہوئے سیٹس یا اُن کے ڈیزائن پر زیادہ ہوتی ہے یوں تو یہ خصوصیت ہر جگہ اس کے ساتھ ساتھ چلتی ہے لیکن ہندوستان میں اودے کے مشاعرے کے حوالے سے کئے جانے والے سفر میں بوجوہ اس کے جوہر مجھ پر زیادہ کُھلے ہیں جس مہارت سے وہ راستوں، عمارات اور کسی مخصوس نشست کی تفاصیل کو یاد رکھتا اور پھر انہیں گفتگو کا حصہ بنا کر بیان کرتا ہے اور اس دوران میں چھوٹی سے چھوٹی بات اور تفصیل کو بھی نظر انداز نہیں کرتا اس کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی عام طور پر لوگ کسی واقعے یا منظر کو بیان کرتے ہوئے اپنے تاثرات یا تبصرے کو اس کے ساتھ جوڑدیتے ہیں یوں یا تو ایک طرح کے غیر ضروری اظہارِ عظمت یا تفصیل کا رنگ غالب ہوجاتاہے یا پھر آپ اُن چیزوں پر مختلف حوالوں سے حکم صادر کرنا شروع کردیتے ہیں جن کا کم از کم سفر نامے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
ایسے مقامات پر وہ صورتِ حال سے کھل کر کھیلنے کے بجائے اور بھی زیادہ محتاط ہوجاتا ہے جس کی ایک بہت عمدہ اور میری چشم دید مثال اودے پور کے قیام کے دوران احمد فراز اور شہریار کے درمیان چھڑنے والی ایک بحث کا بیان بھی ہے جس کا آغاز عرفان صدیقی مرحوم کی شاعری کے حوالے سے ہُوا مگر جو آگے چل کر نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کا شغر پھیلتی ہی چلی گئی کسی خاص موڈ، موقعے یا ذہنی کیفیت کے دوران رواروی میں کہی گئی بہت سی باتیں بظاہر بہت غیر محتاط ہوجاتی ہیں مگر انہیں کہنے والوں کا ”بیانِ حلفی“ سمجھنا یا قرار دینا اس سے بھی زیادہ نامعقول بات ہے۔ سعود عثمانی اس باریک نکتے کو بہت اچھی طرح سے سمجھتا ہے چنانچہ اس نے اس منظر کو دکھایا تو ہے مگر ایک خوشدلی کے انداز میں کہ اگلی صبح تک اس منظر کے سارے کردار اس کو ”رات گئی بات گئی“ کا درجہ دے چکے تھے۔
”بزرگانِ دین“ کے مزارات کو اُن کے متولیوں اور اُن پر قابض گروہوں نے کس طرح عقیدے کی آڑ میں ایک گھناؤنے کاروبار کی شکل دے دی ہے اس کی مثالیں برصغیر میں ہر جگہ آسانی سے نظر آجاتی ہیں اتفاق سے اودے پور سے واپسی پر اجمیر رُکے تو اس رکنے کی سب سے بری وجہ یہی تھی کہ اس بہانے خواجہ معین الدین اجمیری کی درگاہ پر حاضری اور فاتحہ خوانی کا موقع مل جائے گا مگر وہاں تک پہنچنے میں گداگروں اور متولیّوں کے نمائندوں نے جو ہمارا حال کردیا اس کا نقشہ سعود عثمانی نے اپنے سفر نامے میں اسقدر خوبصورتی اور مہارت سے کھینچا ہے کہ سارا منظر معہ اپنے تاثرات کے گویا پھر سے زندہ ہوگیا ہے۔
”ایک لمبا دور ویہ بازار سامنے تھا اور جلد ہی گداگروں کے ہجوم سے اندازہ ہوگیا کہ ہم درگاہ کے قریب ہیں۔۔۔ ایک دستِ سوال ہاتھ کھینچتا تھا اور دوسرا دراز دامن پکڑتا تھا۔۔۔ سہ پہر کی گرمی کے باوجود اندر خلق کا ہجوم تھا عقیدت مند ہر طرف تھے جن میں پسی ہوئی مخلوق کی تعداد زیادہ تھی۔۔۔جیسے ہی ہم اس حجرے میں پہنچے جہاں مزار واقع ہے کسی نے زبردستی ہمارے سر ایک سبز چادر کے نیچے کردیئے۔۔۔۔کیا ظلم ہے کہ خواجہ کی درگاہ میں نہ آپ اپنے طور پر خواجہ کے پاس حاضر ہوسکتے ہیں نہ فاتحہ اور دُعا کے پھول نچھاور کرسکتے ہیں، ایسی رسومات، ایسی بدعات، ایسے عجیب و غریب رواج، فاتحہ کے بہانے نذرانے وصول کرنے کے ایسے طریقے میں نے زندگی بھر کہیں نہیں دیکھے تھے“۔
کہنے کو ہم سب ایک گلوبل ولیج کے رہائشی ہیں مگر سعود عثمانی کے اس سفر نامے میں مشرق و مغرب میں موجود انسانی زندگی اور معاشرت کے جو نمونے ہمارے سامنے آتے ہیں وہ کچھ اور ہی کہانی سنا رہے ہیں۔ ”مسافر“ جیسی کتابوں کا بغور مطالعہ ہمیں منظر اور پسِ منظر دونوں کو بیک وقت سمجھنے کے لئے بھی ایک اچھے گائیڈ کا کام کرتا ہے اور بہانے بہانے سے آتش کے اس مشہورِ زمانہ شعر کے سائے میں بھی لا بٹھاتا ہے کہ
سفر بے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجرِ سایا دار راہ میں ہے
Leave a Comment