علم،عمل، زندگی
ڈاکٹر حسن صہیب مراد سے ملاقاتیں اُس محبت کی نسبت کم ہیں جو اُن کی ذات سے اس طرح سے امنڈی پڑتی تھی کہ اردگرد کا سارا ماحول اس کی خوشبو سے بھر جاتا تھا وہ خوش نما ہونے کے ساتھ ساتھ خوش کلام، خوش خیال، خوش فکر اورخوش خصال بھی تھے جبکہ فی زمانہ ان میں سے دو خصوصیات بھی کسی ایک شخص میں جمع ہوجائیں تو وہ غیر معمولی لگنے لگتا ہے بطور ایک ماہرِ تعلیم اُن کی عمر کے اعتبار سے اُن کی کامیابیاں ناقابلِ یقین لگتی ہیں کہ میں نے ILMسے UMTکے قیام اور فروغ کے درمیان جس ذہانت، تنظیم اور جراّت کے ساتھ اُن کو کام کرتے دیکھا ہے اس دوران میں نہ کبھی اُن کو اُونچا بولتے یا پریشان ہوتے دیکھا اور نہ ہی وطنِ عزیز کے شعبئہ تعلیم کے مسائلستان کے دوران اُن کے چہرے کی مخصوص دلآویز مسکراہٹ کبھی بجھتے دیکھی اُن کے والد خرم مراد جماعتِ اسلامی اور مولانا مودُودی کے بے حد اہم اور مرکزی احباب اور رفقا میں سے تھے اور بلاشبہ اپنی ذات میں ایک کامیاب اور مثالی انسان تھے مگر اُن کا ہونہار بیٹا حسن صہیب مراد جس تیزی افتخاراور فتار کے ساتھ پہلے ایک طالب علم، انجینئر، پی ایچ ڈی ڈاکٹر اور ILMاور UMTجیسے اعلیٰ تعلیمی اداروں کا سربراہ بنا وہ بھی اپنی مثال آپ ہے اُن کی اچانک اور حادثاتی وفات سے یقینا ہمارا معاشرہ ایک بہت قیمتی انسان سے محروم ہوگیا ہے اب جو یہ اُن کی تحریروں کا 198صفحات پر مشتمل مختصر مجموعہ ”علم عمل زندگی“ دیکھنے کا موقع ملا تو اُن کی فکر کی بالیدگی اور اخلاقی اقدار سے وابستگی کی معرفت یوں لگ رہا ہے جیسے وہ اپنے مخصوس اندازمیں براہ راست قارئین سے باتیں کر رہے ہوں برادرم سلیم منصور خالد نے ”گزارشات“ کے عنوان سے کتاب کے آغاز میں بہت اختصار مگر جامعیت کے ساتھ ان تحریروں کی نوعیت، زمانے اور اولین طباعت کے وسیلے کے بارے میں بہت سے حقائق سے آگاہ کیا کتاب کو موضوعات کے اعتبار سے پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن کے بارے میں حسن صہیب مراد نے چھوٹے چھوٹے جملوں میں مذہب، اخلاقیات، تنظیم، محنت، ایثار اور دانش کے حوالے سے تبصرے اور تلقین کو ملا کر ایک نیا ڈھنگ ایجاد کیا ہے جن کی مثالیں میں کالم کے آخر میں درج کروں گا لیکن سلیم منصور خالد کی وضاحت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ موجودہ کتاب کے ذیلی عنوانات اور اُن کی مطابقت سے جملوں اور اقوال کی ترتیب بعد میں کی گئی ہے اور کہیں کہیں موضوعاتی تکرار کے باعث کچھ جملوں کو ایڈٹ بھی کیا گیا ہے جبکہ عمومی انداز براہ راست پڑھنے والوں سے بات کرنے کا ہے حسن مراد صہیب نے علم، عمل اور زندگی کو ایک دوسرے سے جوڑ کر دانش، بصیرت، اخلاق، اقدار اور عمومی انسانی روّیوں کو اس طرح سے بیان کیا ہے کہ ان کی کہی ہوئی بہت سی باتیں ”اقوال زریں“ کا روپ اختیار کرگئی ہیں کتاب کے مزاح کو سمجھنے کے لیئے آیئے پہلے ا س کے چند ذیلی عنوانات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
۱۔صراطِ مستقیم کی تلاش۔
۲۔دقت
۳۔آپ اورآپ کے تعلقات۔
۴۔ تم دیکھتے کیوں نہیں۔
۵۔وعدے کا قاعدہ۔ ۶۔آپ کا ردّعمل کیا ہو۔
۷۔ذہنی دباؤ سے بچیئے۔
۸۔مسائل کا حل کیسے؟
۹۔بڑی تبدیلی لایئے۔
۰۱۔ آئنہ بنیئے آئنہ دیکھیئے
۱۱۔ پُراعتماد شخصیت۔
۲۱۔قسم ہے قلم کی۔
۳۱۔مقاصد کا حصول۔
۴۱۔کامیابی کی سیڑھیاں۔
۵۱۔میرے مالک، خالق اور پروردگار۔
ان عنوانات سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ وہ انسان کی ذہنی، اخلاقی معاشرتی اور مابعد الطبعیاتی حوالوں سے ایک ایسی آئیڈیل تصویر پیش کرنا چاہتے ہیں جس تک ہر سوچنے اور کوشش کرنے والے کی رسائی ہوسکے عام طور پر نصیحت اور ہدائت کی باتوں میں کہنے اور سننے والے کے درمیان ایک خاص طرح کا فاصلہ خودبخود پیدا ہوجاتاہے حسن صہیب مراد کی اس تحریرکی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس کا انداز انتہائی دوستانہ ہے مثال کے طور پر یہ چند جستہ جستہ جملے دیکھیئے۔
۱۔ آپ خود اچھے بنیں تو اولاد اور وابستگان ضرور اچھے بنیں گے آپ کی اولاد اور وابستگان توآپ کا آئنہ ہوتے ہیں اور آئنہ جھوٹ نہیں بولتا۔
۲۔ وقت کے گزرنے کا انسانوں کو احساس تو ہوتا ہے مگر وقت کے برباد ہونے کا احساس بہت کم لوگوں کو ہوتاہے۔
۳۔ حادثے کا امکان رکھیئے اور حادثہ ہوجائے تو اُسے حادثہ ہی قرار دیجیئے۔
۷۔ اپنا ہی نہیں دوسروں کا بھی وقت بچایئے۔
۵۔ کام سے لطف اُٹھایئے کام کو مصیبت نہ سمجھئے کام کو اپنا شوق بنا لیجیئے اور شوق کو کام بنا لیجیئے۔
۶۔ خط یا پیغام کا جواب نہ دینا بالکل ایسا ہے جیسے کوئی آپ کا دروازہ کھٹکھٹائے اور آپ دروازہ نہ کھولیں کوئی آپ کو سلام کرے اور آپ سلام کا جواب نہ دیں۔
۷۔ جو ممکن نہیں ہے اُس کی حسرت نہ کیجیئے جو موجود ہے اُس پر خدا کا شکر اداکیجیئے۔
۸۔ عملاً سننا بولنے سے زیادہ مشکل کام ہے اور اچھی طرح سننا تو خاصا مشکل کام ہے۔ سمجھنا چاہیئے کہ دوسروں کی بات اچھی طرح سن کر ہی اپنی بات دوسروں کو اچھی طرح سمجھائی جاسکتی ہے۔ جو دوسروں کی سنتا ہے اُسی کو سنا بھی جاتا ہے۔
۹۔ آئنہ آپ کی تصویر کسی اور کو نہیں دکھائے گا کسی اور کی تصویر آپ کونہیں د کھائے گا۔
۰۱۔ سب کے لیئے مشاہدہ ایک اہم ترین صلاحیت ہے، نتائج کا انحصار کارکردگی پر، کارکردگی کا فیصلوں پر اور فیصلوں کا مشاہدے سے ہوتا ہے۔
۱۱۔ ذہن اُلجھتا ہے تو سننے اور دیکھنے کی صلاحیت بھی ٹھیک طرح کام نہیں کرتی۔
۲۱۔ افراد کی مدد کرتے ہوئے اُن کے ساتھ احسان کریں اور کیا ہُوا احسان بھول جائیں۔
۳۱۔ یاد رہے مسائل درخت کی مانند ہوتے ہیں اُن کی شاخیں کاٹنے کے بجائے اُن کو جَڑ سے اُکھاڑنا ضروری ہے۔
۴۱۔ خود فراموشی کا یہ روّیہ ہمیں رفتہ رفتہ مایوسی یا پھر خود فریبی میں مبتلا کردیتاہے اس روّیے کی زندہ مثال وہ مکھی ہے کہ جو کھڑکی سے باہر دیکھ کر مسلسل شیشے پر اپنا سرمارتی ہے قصور شیشے کا ہے یا مکھی کا؟
Leave a Comment