عِلم یا معلومات
آج کل یہ موضوع کم و بیش ہر پڑھے لکھے اور سوچنے والے شخص کی گفتگو کا ایک تقریباً لازمی حصہ بن چکا ہے کہ انٹرنیٹ، آئی ٹی اور موبائل فونز کے اس دور میں صدیوں سے قائم علم اور معلومات کی تعریفیں بہت تیزی سے اور ایک ہمہ جہت اندازمیں بدل رہی ہیں اور ہمارے تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیاں بھی اس کی زد میں آکر اپنے اصل راستے سے بہت حد تک ہٹتے جارہے ہیں کہ اُن کا کام طالبانِ علم کو وہ علم فراہم کرنا ہے جس میں معلومات بہت سے مراحل اور امتحانات سے گزرنے کے بعد علم کا درجہ حاصل کرتی ہیں جبکہ ہماری آج کی نسلیں رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے معلومات یعنی انفارمیشن کو ہی علم سمجھ بیٹھی ہیں اور یہ نہیں دیکھتیں کہ انفارمیشن بدلتی بھی رہتی ہے، غلط بھی ہوسکتی ہے اور حسبِ ضرورت چہرے بھی بدل سکتی ہے۔
ایسے میں پہلوانوں اور فنکاروں کے شہر گوجرانوالہ میں ایک ایسی جدید یونیورسٹی کا قیام(میری مراد IISATیعنی انڑنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سائنس، آرٹس اور ٹیکنالوجی سے ہے) ایک بہت اچھی خبر کی طرح ہوا ہے مجھے یاد پڑتا ہے کہ کرونا سے پہلے غالباً 2018ء میں اسی گروپ نے سیالکوٹ میں ایک یونیورسٹی قائم کی تھی جس میں اطلاعات کے مطابق 125سے زیادہ پی ایچ ڈی اساتذہ جدید و قدیم علوم کی ترسیل کر رہے ہیں اور 32کنال پر قائم اس نئی یونیورسٹی کے عزائم اپنی بڑی بہن سے بھی بلند ہیں جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ اس کے نام اور پروگرام میں ”آرٹس“ کا حوالہ ہے کہ فی زمانہ عام لوگ اور اعلیٰ تعلیم کے حامل دونوں ہی سوشل سائنسز، ادب اور فنونِ لطیفہ سے بوجوہ دُور ہوتے چلے جارہے ہیں جبکہ یہ طے ہے کہ کسی شخص کو ایک مکمل انسان بننے کے لئے روحانیت کے علاوہ سائنس اور آرٹس دونوں کی یکساں ضرورت ہے دوسری بہت اہم بات اس گرانی کے دور میں اچھے مگر کم وسیلہ طالب علموں کی مدد کے لیئے بہت سے وظائف کا اجرا تھا جیسے گوجرانوالہ ڈویژن میں ایف اے، ایف ایس سی میں شاندار کارکردگی دکھانے والے طلبہ و طالبات کو 75%تک سکالر شپ آفر کیا گیا ہے۔ آرٹس سے ان کی محبت اورکمٹ منٹ کا اظہار اُنہوں نے یوں کیا کہ ادارے کی سب سے پہلی تقریب کا مرکزی حصہ ایک مشاعرے کے لئے مخصوص کر دیا کہ طلبہ اور مہمان ایک شام خوبصورت جذبوں اور تصّورات کے درمیان گزار سکیں۔تقریب سے یونیورسٹی کے چانسلر فیصل منظور، صدر ریحان یونس،وائس چانسلر ڈاکٹر سوید الحسن چشتی، پرووائس چانسلر ڈاکٹر سعید الرحمن اور رجسٹرار محمد یعقوب صاحب کے علاوہ معاشرے اور تعلیم سے متعلق کچھ اور احباب نے بھی خطاب کیا جبکہ مشاعرے میں چاروں مہمان شعراء کے جس جس شعر کو سب سے زیادہ داد ملی وہ کچھ اس طرح سے ہیں
بڑھاپا ایک ایسا خوف جس نے
مجھے اب تک جواں رکھا ہوا ہے
(شوکت فہمی)
یار بھی راہ کی دیوار سمجھتے ہیں مجھے
میں سمجھتا تھا مرے یار سمجھتے ہیں مجھے
(شاہد ذکی)
دہائی دیتا رہے جو دہائی دیتا ہے
کہ بادشاہ کو اُونچا سنائی دیتا ہے
(عباس طابش)
لفظ سے بھی خراش پڑتی ہے
تبصرہ سوچ کر کیا کیجے
(امجد اسلام امجد)
ریحان یونس بہت راست فکر اور باقاعدہ پڑھے لکھے آدمی نکلے کہ جو تھوڑا سا وقت اُن کے ساتھ گفتگو میں گزرا اس میں زیادہ تر بات اسی علم یا معلومات کے حوالے سے ہوئی اور یہ جان کر خوشی ہوئی کہ اگر یونیورسٹی کے بورڈ کا صدر اس طرح کی مستقبل گیر اور مثبت سوچ کا حامل ہے تویقینا اس کا اثر یونیورسٹی کے عمومی ماحول پر بھی ہوگا اتفاق سے گزشتہ دنوں ایک ایسی غزل ہوئی ہے جس کی ردیف ہی ”اگر ہے تو کس لیئے“ ہے یعنی اس میں معلومات سے حاصل ہونے والے علم سے پیدا ہونے والے سوالات کو موضوع بنایا گیا ہے تو آیئے ان اشعار کی معرفت اس بات کی گہرائی تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ذرّے میں آفتاب اگر ہے تو کس طرح
صحرا میں یہ سراب اگر ہے تو کسی طرح
کیا بات اُس میں ہے جو کسی اور میں نہیں
وہ حسنِ انتخاب اگر ہے تو کس طرح
ایسی سیاہ رات میں، بجھتے دیوں کے بیچ
روشن سحر کا خواب اگر ہے تو کس طرح
وہ غم جو دینے والے کے بھی علم میں نہیں
اُن کا کوئی حساب اگر ہے تو کس طرح
اِن بے جہت صداؤں کو سنیئے تو یہ کُھلے
یہ خامشی ثواب اگر ہے تو کس طرح
ہوتا ہے اک سوال میں اک دوسرا سوال
ہر کوئی لاجواب اگر ہے تو کس طرح
ہرسوُ بکھرتے ٹوٹتے رشتوں کے باوجود
اک درد کامیاب اگر ہے تو کس طرح
مانا کہ اپنی اصل میں مکتب ہے زندگی
بے چارگی نصاب، اگر ہے تو کس طرح
کیوں دے رہا ہے کوئی کسی دوسرے کا قرض
اس کا کوئی جواب اگر ہے تو کس طرح
سب ممکنہ سہولتیں ہونے کے بعد بھی
یہ زندگی عذاب اگر ہے تو کس طرح
Leave a Comment