اہلِ کربل کوہو سلام مرا-امجداسلام امجد

اہلِ کربل کوہو سلام مرا

اہلِ کربل کوہو سلام مرا

عدمؔ صاحب تھے تو ایک بالکل مختلف مزاج کے شاعر مگر جس اندازمیں انہوں نے جناب امامِ عالی مقام اور اُن کی بے مثال شہادت کو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے وہ بھی اپنی مثال آ پ ہے کہ میرے نزدیک یہ دو مصرعے کئی کتابوں پر بھاری ہیں کہ

جب خیرو شر میں دِقّتِ تفریق ہوگئی
بے ساختہ حسینؓ کی تخلیق ہوگئی

واقعہ کربلا اور امام حسینؓ اور اُن کے ساتھیوں کی تاریخ ساز شہادت پر جتنا ادب لکھا گیا ہے شائد تاریخ عالم کا کوئی اورواقعہ اس کے مقابلے میں پیش نہیں کیا جاسکتا۔ انسانی عمل، ارادے،کمٹ منٹ، قربانی اور استقامتِ کردار کے حوالے سے بھی اس کے اثرات صرف مسلمان دنیا میں ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت پر محیط ہیں اور ان کی بازگشت ہر جگہ دیکھی اور سُنی جاسکتی ہے میں نے بھی اس حوالے سے کئی سلام اور نظمیں لکھی ہیں مگر میری ذاتی رائے میں حال ہی میں لکھی جانے والی یہ نظم”اہلِ کربلا کو ہو سلام مرا“ کئی حوالوں سے ز یادہ جامع اور موثر ہے اور پتہ نہیں کیوں مجھے یقین ہے کہ کسی پُراسرار طریقے سے نہ صرف یہ کہ یہ اُن تک پہنچے گی بلکہ وہ اس سے راضی بھی ہوں گے۔

دشت میں شام ہوتی جاتی تھی
ریت میں بُجھ رہی تھی وہ آنکھیں
جن کو اُنؐ کے لبوں نے چُوما تھا
(جن کی خاطر بنے یہ ارض و سما)
پاس ہی جل رہے تھے وہ خیمے
جن میں خود روشنی کا ڈیرا تھا
ہر طرف تھے وہ زخم زخم بدن
جن میں ہر ایک تھا گہُر تمثال
قیمتی، بے مثال، پاکیزہ
دیکھ کر بے امان تیروں میں
ایک چھلنی، فگار، مشکیزہ
رُک رہا تھا فرات کا پانی
وقت اُلجھن میں تھا کدھر جائے!
پھیلتے جارہے تھے ہر جانب
بے کراں درد کے گھنے سائے
جن میں لرزاں تھی ایک حیرانی
جو کہ گمنام ہوتی جاتی تھی
دشت میں شام ہوتی جاتی تھی

پھر اُسی شام کے تسلسل میں
شام والوں نے، اہلِ کوفہ نے
جلتے خیموں سے دربدر ہوتی
روشنی کا جلوس بھی دیکھا
خاک اور خون میں تھیں آلودہ
اُن جبینوں کی چادریں کہ جنہیں
چاندنی چھُپ کے ملنے آتی تھی
وہ حیادار تھی نظر اُن کی
جس کا سب احترام کرتے تھے
خاک برسر، برہنہ پا، خاموش
چل رہی تھیں وہ بیبیاں، جن کے
معتبر، بے مثال شجرے کو
جُھک کے تارے سلام کرتے تھے
شہر کے راستوں کے گِرداگِرد
ہر طرف تھا ہجوم لوگوں کا
خوگرِ ظلم، سنگ دل، قاتل
تخت ابلیسیہ کے کارندے
سب کی آنکھوں کے سامنے اُن کو
پابہ زنجیر کھینچے جاتے تھے
سرِ بازار سے سوئے دربار
ہنستے جاتے تھے شمر کے ساتھی
خلقتِ شہر روتی جاتی تھی
دشت میں شام ہوتی جاتی تھی

آج کی شام اور اُ س کے بیچ
چودہ صدیوں کی آڑ ہے لیکن
وقت بُھولا نہیں ہے وہ لمحے
اب بھی آنکھوں کے سامنے جیسے
سب وہ منظر دکھائی دیتا ہے
اور ہم یہ بھی جان سکتے ہیں
عارضی کیا تھا، مستقل کیا ہے؟

کہہ رہا ہے فرات کا پانی
ظلم کی جیت بھی ہے موت آثار
ہارنے پر بھی حق نہیں مرتا
مارنے والے ہوگئے معدوم
جو مرے تھے وہ اب بھی زندہ ہیں
جُھوٹ فانی ہے، سچ ہے لافانی
نہ وہ دربار ہے نہ صاحبِ تخت
نہ وہ دیوار ہے نہ تصویریں
نہ کہیں پر ہیں وہ شقی قاتل
نہ وہ زندان ہیں نہ زنجیریں!

کچھ بھی باقی نہیں رہا لیکن
دشت کی شام کے کہیں اُس پار
کیا ستارے سے جھلملاتے ہیں
ریت پر جو گرے تھے سر اب بھی
مسکراتے ہیں جگمگاتے ہیں
بولتا ہے حسینؓ کا پرچم
لفظ زینبؓ کے یاد آتے ہیں

اہلِ کربل کو ہو سلام مرا
جن کے عزم و عمل کے صدقے میں
موت اور زندگی کے لفظوں کے
ایک پَل میں بدل گئے معنی
سارے عالم میں ہر زمانے میں
یہ خبر عام ہوتی جاتی ہے
دشت میں شام ہوتی جاتی ہے

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *