خدمت، برکت اور نذرانہئ نعت
کورونا کی تباہ کاریاں اپنی جگہ مگر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اس کی وجہ سے ہماری زندگیوں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حوالے سے بہت سی ایسی تبدیلیاں راہ پاگئی ہیں۔ جو اس وبا کے ختم ہونے کے بعد بھی ہمارے ساتھ چلتی رہیں گی اگر چہ اس سے قبل بھی کبھی کبھار رمضان کے مہینے میں چیریٹی اور خدمتِ خلق کے حوالے سے کچھ ادارے ٹیلی ویژن پر فنڈریزنگ کے پروگرام کیا کرتے تھے لیکن Zoomاور اس سے ملتی جلتی Apps کی وجہ سے اب یہ ایک معمول کی بات بن گئی ہے کہ آپ کہیں بھی ایک عارضی سا سٹوڈیو بنا کر دنیا کے کسی بھی حصے میں احباب سے براہ راست بات چیت کرسکتے ہیں مجھے یاد پڑتا ہے کوئی چھ برس قبل میں پہلی بار عزیزی ابرار الحق کے ”سہارا ٹرسٹ“ کی ٹیلی تھان میں شریک ہوا تھا۔
جو اُس وقت ایک بالکل نیا تجربہ تھا لیکن اب یہ ایک عام سی بات ہوگئی ہے ابھی کل رات ہی مجھے ”الخدمت“ کے UK سے متعلق ایک فنڈ ریزر میں شرکت کا موقع ملا اور اب17 اپریل کو اُن کے کینیڈا سے متعلق ایک ٹیلی تھان میں حاضری دینے کے بعد 20اپریل کو برادرم ڈاکٹر امجد ثاقب کے ادارے ”اخوّت“ کے ایک اسی نوع کے پروگرام میں شامل ہونا ہے۔
ربِ کریم کے فضل اور رمضان کی برکت سے ہر پروگرام بہت کامیاب جارہا ہے اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانی زکوٰۃ اور صدقات کی مد میں دل کھول کر اعانت کرتے ہیں جن سے یہ ادارے وطنِ عزیز میں روزگار، آسان اور بلا سود قرضوں، تعلیم، صحت، صاف پانی کی فراہمی اور یتیم بچوں کے لیے ایسے معیاری نظام وضع کرتے ہیں کہ بے ساختہ ان کے لیے دل سے دُعا نکلتی ہے گزشتہ شب والے پروگرام میں جس کی نظامت عزیزی وصی شاہ نے کی میرے علاوہ مشہور مزاحیہ اداکار افتخار ٹھاکر، ماضی کے بے مثال لیگ سپنر مشتاق احمد، اوریا مقبول جان، خالد مسعود خان اور ”الخدمت“ کے ناظمِ اعلیٰ میاں عبدالشکورنے شرکت کی جبکہ نوجوان کرکٹر فخر زماں ویڈیو کال پر شریکِ محفل ہوئے یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ گزشتہ پروگرا م میں باکمال بالر سعید اجمل ہمارے ساتھ تھے ”الخدمت“ کے دوست یوں تو کئی شعبوں میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں مگریہ پروگرام یتیم بچوں کے لیے تعمیر اور قائم کردہ ”آغوش“ نامی سلسلے کے بارے میں تھا جس کے تحت اس وقت وطن کے طول و عرض میں انیس ادارے بیس ہزار سے زیادہ یتیم بچوں کی مکمل کفالت کررہے ہیں جہاں ان عمارات میں قیام پذیر بچوں کے لیے اعلیٰ تعلیم اور بہترین ماحول کا اہتمام کیا جاتاہے وہاں بہت سے بچوں کی کفالت اور نگہداشت اُن کے گھروں میں ایک باقاعدہ اور فول پروف سسٹم کے ذریعے کی جاتی ہے میاں عبدالشکور نے بتایا کہ اس کام کا آغاز2005ء کے تباہ کن زلزے میں یتیم ہونے والے بے سہارا بچوں کے لیے اٹک سے شروع کیا گیا تھا مجھ سمیت جن احباب نے کسی بھی ”آغوش“ سنٹر کا دورہ یا معائنہ کیا ہے وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ یہ ادارے اپنے کام کے حوالے سے بے مثال بھی ہیں اور شاند ار بھی اور یہی وجہ ہے کہ ”عدم اعتماد“ کے اس دور میں بھی لوگ اس تنظیم کی اہلیت، شفافیت اور کارکردگی پر بھرپور اعتمادکرتے ہیں میاں عبدالشکور نے بتایا کہ جن دوستوں نے اس منصوبے کا آغاز کیا تھا انہوں نے اس کی یہ اولین شرط اپنے اوپر خود عائد کی تھی کہ ہر بنیادی ممبر کم از کم اُتنے یتیم بچوں کی کفالت کا ذمہ لے لے جتنے اس کے اپنے بچے ہیں اور یہ کہ ان یتیم بچوں کی دیکھ بھال اور پرورش اُسی طرح سے کی جائے جیسے وہ اپنے بچوں کی کرتے ہیں۔ یوکے کے دوستوں کے لیے ایک بچے کی ایک سال کی مکمل کفالت کے لیے 360پاؤنڈ یعنی 30 پاؤنڈ ماہانہ رکھے گئے تھے اس ٹیلی تھان کے دوران صرف یو کے کے احباب نے تقریباً چھ سو بچوں کی کفالت کا ذمہ لیا جس کی کل رقم ساڑھے پانچ کروڑ پاکستانی روپوں کے برابر بنتی ہے اور اُمید کی جاتی ہے کہ رمضان کی برکات کے حوالے سے آئندہ دو عشروں میں ان کا ٹارگٹ یعنی ایک ہزار بچوں کی کفالت بھی مکمل ہوجائے گا جس محبت اور گرمجوشی سے پاکستان کے اندر اور بیرونِ وطن مقیم پاکستانی خیرات کے کاموں میں حصہ لیتے ہیں اُسے دیکھ کر ساری رات جاگنے کی تھکن کے بجائے اس کام سے متعلق تمام لوگ مزید تازہ دم ہوجاتے ہیں۔ ربِ کریم سے دعا ہے کہ وہ ناموسِ وطن کی حفاظت کے حوالے سے بھی ہمیں ایسے ہی اتحاد، ایمان اور تنظیم سے سرفراز فرمائے۔ آمین۔
بشریٰ فرخ ہمارے گزشتہ اکادمی ادبیات پاکستان کے دورہ چین میں بھی ہم سفر تھیں جس کا مقصد دونوں ملکوں میں ادب اورثقافت کے حوالے سے ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے اُن کی شاعری سے تو تعارف خاصا پرانا ہے مگر اب جو اُن کا نعتیہ کلام ایک ساتھ دیکھنے کا موقع ملا ہے تو اُن کی شخصیت کا یہ رُخ ایک بہت خوشگوار حیرت کی طرح سامنے آیا ہے کہ ان کی نعتیہ شاعری نہ صرف اس مقدّس رستے کے آداب پر پوری اُترتی ہے بلکہ اُن کا زیادہ زور روائتی مضامین کے بجائے اپنے اوپر گزرنے والی روحانی کیفیات او ر حضوری کے انبساط کی ایک ایسی فضا سے ہے جس میں قاری بھی رُوح تک ایک منفرد سی سرشاری میں بھیگ بھیگ جاتا ہے یہ چند جستہ جستہ نعتیہ اشعار بشریٰ فرخ کے اس روحانی کیف اور میرے تاثر کی ترجمانی کے طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔
مرے سرکاردردِ ناشنیدہ لے کے حاضر ہوں
دلِ صد چاک، چشمِ آبدیدہ لے کے حاضر ہوں
بڑے قیمتی جواہر مرے دل کے گھر سے نکلے
تیری یادمیں جوآنسو مری چشمِ تر سے نکلے
حضوری میں لبِ خاموش سے ہو گفتگو کیونکر
ادب اُنؐ کی محبت کے قرینے سے ہے وابستہ
سیرت و فہم و فراست علم و حکمت، معجزات
ہر ادا صلِ علیٰ کی آبروئے نعت ہے
سوچیں جو ایک عشق کی سجدہ گذاریاں
ہم نے ہزار راتوں کی نیندیں ہیں واریاں
ہے محبوب خدا کے عاشقوں کا قافلہ بشریٰ
رہیں گے چاند سورج اور ستارے ہم سفر اپنے
آشنائی عشق میں ڈھلنے لگی
اور پھر میں مصطفائی ہوگئی
Leave a Comment