لتا جی-امجداسلام امجد

لتا جی-امجداسلام امجد

لتا جی

میں اسلام آباد ایوانِ صدر میں ہونے والے یومِ یک جہتی کشمیر مشاعرے میں شرکت کے بعد لاہور واپسی کی تیاری کر رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی اور بول ٹی وی چینل سے کسی صاحب نے بتایا کہ لتا منگیشکر کا انتقال ہوگیا ہے اور وہ اس سلسلے میں میرا بیپرپر کمنٹ لینا چاہ رہے ہیں میں نے عرض کی فوری طور پریہ ممکن نہیں ہوگا کیونکہ اس رخصت ہونے والی ہستی کے ساتھ میری سماعت کی کم و بیش چھ دہائیاں وابستہ تھیں جواب یتیم اور بے چہرا ہوگئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ذہن میں لتا جی کی یادیں اور اُن کے بے شمار گیت گونجنے لگے کچھ دیر بعد فیس بُک پر اُن کی تصویروں، نغمات اور تعزیتی پیغامات کا قبضہ ہوگیا کسی صاحب نے گلزار بھائی کی لتا جی کے اعترافِ فن کے حوالے سے ایک ویڈیو پوسٹ کی جو ایک بڑے انسان کی طرف سے ایک دوسرے بڑے انسان کی پذیرائی کا ایک بے مثال نمونہ تھی میں نے سوچا کہ لتا جی کے حقیقی پسماندگان کی طرح گلزار بھائی بھی اُن کی تعزیت کے حق دار ہیں کہ وہ اُن کو اپنی بڑی بہن تو کہتے ہی تھے مگر ان کے لکھے ہوئے گیتوں کو بھی سب سے زیادہ سلیقے سے لتا جی نے ہی گایا ہے کل اُن سے فون پر بات ہوئی تو میں نے کہا کہ آج کل آپ کا لکھا اور لتا جی کا گایا ہوا نغمہ ”نام گُم جائے گا“ بہت دہرایا جارہا ہے مگر خود لتا جی کا نام اس بات کا ثبوت ہے کہ بعض ناموں پر یہ بیان فِٹ نہیں بیٹھتا کہ اُن کی آواز صرف اُن کی پہچان ہی نہیں تھی بلکہ اس کی گونج صدیوں تک اُن کے نام اور یاد کو زندہ رکھے گی۔

لتا جی سے مختلف اوقات میں فون پر تین چار مرتبہ گفتگو ہوئی لیکن یہ سرِ راہ ہونے والی واحد ملاقات کے جو تیس برس قبل لندن کی آکسفورڈ سٹریٹ میں ہوئی پہلے کی بات ہے میں اور میری بیوی فردوس برادرِ عزیز مکرم جاوید سے ملاقات کے بعد اُس کے دفتر سے اُتر کر سڑک پر آئے ہی تھے کہ ایک دَم لتا اور آشا جی دو نو عمر لڑکیوں کے ساتھ سامنے آگئیں جو شائد وہاں سڑک پار کرنے کے لئے کھڑی ہوئی تھیں ہم نے سلام دعا کے بعد بتایا کہ ہم پاکستان سے ہیں تو اُن کی رسمی مسکراہٹ ایک دم اپنائیت سے بھر گئی انہوں نے اپنے نمستے کے انداز میں جڑے ہوئے ہاتھ ایک دم کھولے اور ہم دونوں سے بڑی محبت سے ہاتھ ملایا اس سے پہلے کہ ہم کچھ اور کہتے اُن کی ساتھی ایک بچی نے کہا ”آنٹی چلیں سگنل گرین ہوگیا ہے“ انہوں نے جلدی سے ہمیں خدا حافظ کہا اور پیدل چلنے والوں کی کراسنگ کی طرف مڑگئیں ابھی ہم اس اچانک اور پُرلطف تجربے کے خوشگوار تحیّر میں تھے کہ اس میں مزید اضافہ ہوگیا اور وہ یہ کہ سڑک پار کرنے کے بعد نہ صرف انہوں نے مُڑ کرہمیں دیکھا بلکہ مسکرا کر ”بائے“ کہنے کے انداز میں ہاتھ بھی بلند کیا۔

اس واقعے کے کئی برس بعد مرحوم نصرت فتح علی خان کیساتھ میں ایک آڈیو البم کے لئے گیت لکھ رہا تھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ لتا جی کی فرمائش پر اُ ن کیلئے کچھ گیت کمپوزکررہے ہیں اس کام کے لئے انہوں نے میرے تین گیت منتخب کئے ہیں جن میں ایک کی ڈُھن وہ فون پر لتا جی کو سُنا بھی چکے ہیں جو انہیں بہت پسند آئی ہے اور یہ کہ بھارت کے اگلے وزٹ پر ان کی ریکارڈنگ ہوگی چند دن بعد انہوں نے ساؤنڈ ٹریک کی تیاری کے بعد اُن سے فون پر میری بات بھی کرائی بہت محبت سے ملیں اور بتایا کہ نہ صرف میرے ٹی وی ڈرامے بہت شوق سے دیکھتی ہیں بلکہ اُن کو میرا لکھا اور دیدی یعنی ملکہ ترنم نور جہاں کا گایا ہوا گیت ”میں ترے سنگ کیسے چلوں ساجنا“ بھی بہت پسندہے اور وعدہ لیا کہ میں بھی خان صاحب کے ساتھ بھارت آؤں گا۔ بدقسمتی سے یہ سب کچھ اُس وقت ٹھپ ہوگیا جب نصرت فتح اچانک اس دنیا سے پردہ کرگئے بعد میں جگجیت سنگھ کی معرفت اُن سے دو تین بار بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ اُس ٹریک پر ایک ڈمی ریکارڈنگ کراچکی ہیں جسے عنقریب اُن کا منہ بولا بیٹا ریکارڈ اور لانچ کرے گا پھر پتہ چلا کہ اُن کی علالت کی وجہ سے کچھ تاخیر ہوگئی ہے مگر اب کسی بھی وقت یہ کام ہوجائے گا لیکن معلوم نہیں تقدیر کو کیا منظور تھا کہ انہی دنوں ممبئی میں تاریخی طوفانی بارشیں ہوئیں اور پانی ایک عمارت کے اُس تہہ خانے میں بھی بھر گیا جہاں وہ سٹوڈیو قائم تھا جس سے نہ صرف وہ ٹریک ضائع ہوگیا بلکہ اپنی مستقل علالت کے باعث وہ بعد میں بھی اسے محفوظ نہ کرسکیں۔ ذاتی طور پر اُن سے یہ مختصر مگر براہ راست تعلق میری زندگی کی حسین یادوں میں سے ایک ہے اور اب اُن کے جانے کے بعد میں اُن کروڑوں لوگوں کی بھیڑ میں شامل ہوں جن کے کانوں نے اس تاریخ ساز بلکہ اپنی جگہ پر خود ایک تاریخ کی روحوں میں اُتر جانے والی شیتل اورخوب صورت آواز کو سنا جس کا جادو کچھ دیر کے لئے ہی سہی آپ کو دنیا کے ہر غم، رنجش اور دباؤ سے آزاد کردیتاہے۔

موٹروے سے واپسی کے سفر میں اُن کے لئے ایک نظم نے ذہن میں انگڑائی لی اور چند ہی گھنٹوں میں یہ گیت نما نظم اپنے پیروں پر کھڑی ہوگئی ابھی اس کی Fine Tunning کا عمل جاری ہے یعنی ممکن ہے کہ جب یہ میرے کسی شعری مجموعے میں شامل ہوتو اس میں کچھ مزید تبدیلیاں واقع ہوچکی ہوں مگر فی الوقت یہ اُس فوری تاثر کا ایک اظہاریہ ہے جس سے میں گزرا ہوں اور اُمید کرتا ہوں کہ آپ بھی اسے اپنے دل سے قریب پائیں گے۔

گُم سُم گُم سُم ساز پڑے ہیں، سُر کی رانی چلی گئی
اُجڑ گئی رنگوں کی دنیا
رُوٹھ گئی پھولوں سے خوشبو
خشک ہوا سنگت کا دریا
کرکے دنیا کو دیوانہ وہ دیوانی چلی گئی
جب جب بھی وہ تان لگاتی
وقت کا پہیّہ رک جاتا اور
سرگم اُس میں گم ہوجاتی
اُتر گئے رازوں کے چہرے لَے کی جوانی چلی گئی
جیسے ہوں بچپن کے میت
جیون کے ہر درد کا درماں
مرہم جیسے اُس کے گیت
سات سُروں کا دریا تو ہے، اُس کی روانی چلی گئی
خوابوں کے دَر کھولنے والی
بکھر گئی وہ گُل آواز
کانوں میں رَس گھولنے و الی
ڈوب گیا وہ صبح کا تارا، شام سہانی چلی گئی
اُس کے گیتوں کی مہکار
اک سی آتی جاتی تھی
ملکوں کا سرحد کے پار
مست کیا ہر دل کو جس نے وہ مستانی چلی گئی
گُم سُم گُم سُم ساز پڑے ہیں سُر کی رانی چلی گئی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *