کرو جو بات کرنی ہے-امجداسلام امجد

کرو جو بات کرنی ہے-امجداسلام امجد

کرو جو بات کرنی ہے

حفیظ جالندھری کا ایک شعر ہے۔

!ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں تو ڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے! کہیں ایسا نہ ہوجائے

گورے حضرات انگریزی میں اس فیصلے اور تذبذب کی کیفیتی کا علاج تین الفاظ یعنی do it now سے کرتے ہیں۔ہماری عمر جس قدر تیزی سے ساتھ گزرتی ہے اس کا احساس ریٹائرمنٹ یا اُس کی عمر تک پہنچنے کے بعد زیادہ ہونے لگتا ہے کہ باقی ہر چیز کی رفتار شائد سست پڑ جاتی ہو لیکن عمر اور وقت کے گزرنے پر اس کا اثر اُلٹ ہوتا ہے زیرِ نظر تحریرمیں اسی واہمے یا انکشاف پر بات کی گئی ہے مجھے ا چھی بھی لگی اور بامعنی اور سبق آموز بھی سو سوچا کیوں نہ آپ کو بھی ا س تجربے میں شامل کرلیا جائے۔

 
یقینا آپ کے علم میں ہوگا کہ وقت کو تیزی سے گزرنے کا ایک انوکھا ڈھب آتا ہے اور یہ کہ اس نے گزرے ہوئے سالوں میں کس طرح کئی بار آپ کو اچانک اس طرح اور اُس طرف سے گرفت میں لیا ہے کہ آپ کو جس کا گمان تک نہیں تھا پلٹ کر دیکھیے تو ایسا لگتا ہے جیسے یہ ابھی کل کی بات تھی ہم جوان تھے اور ایک نئی زندگی شروع کرنے کے بارے میں سوچ بھی رہے تھے لیکن اگر ذرا مختلف انداز میں سوچیں تو یہ برسوں پرانی بات ہے اور یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ درمیان کے بہت سارے برس کب آئے اور کب گئے اگر چہ ایک حقیقت ہے کہ میں نے وہ سب دن بقائمی ہوش و حواس گزارے ہیں اُن کی کچھ اُڑتی اُڑتی جھلکیاں بھی میرے ذہن میں رہ گئی ہیں جس میں میری اُمیدیں اور خواب ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو رہے تھے۔

 
بہرحال اب یہ سب ہوچکا ہے اور یوں ہے کہ اب میں اپنی زندگی کی آخری چوتھائی میں ہوں اور یہ وقت بھی گزرتے ہوئے وقت کی طرح اچانک اور بن بتائے آیا ہے میں اس قدر تیزی اور جلدی سے یہاں کیونکر پہنچا۔ میری جوانی کے درمیان کے برس کہاں گئے، کچھ پتہ نہیں۔

 
مجھے اچھی طرح یاد ہے میں بوڑھے لوگوں کو اپنی عمر کے لیے اور اُن کی عمر کے چوتھے دورانیے میں اس گمان کے ساتھ دیکھا کرتا تھا کہ ان بوڑھوں اور میری عمر کا درمیانی فاصلہ بہت زیادہ ہے اور میں اُس وقت یہ سوچ یا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ عنقریب میں خود اس منظر کا حصہ بن کر اسے دیکھا کروں گا۔

 

اب یہ ایک کھلی اور سامنے کی حقیقت ہے کہ میں اور میرے دوست بڑھاپے کی حدود میں داخل ہوچکے ہیں اور ہمارے بال اپنی قدرتی سیاہی کھو کر اب منگحے اور سفید ہو رہے ہیں اب ہم سب کی رفتار سست ہوچکی ہے اور جب بھی بوڑھوں کو دیکھتا ہوں تو اُن میں کچھ مجھے اپنے سے بہتر لگے لیکن زیادہ تر کی حالت قابلِ رحم تک خراب تھی لیکن اس کے باوجود سب کے سب ایک بہت بڑی تبدیلی کے آئنہ دار تھے اب اُن میں وہ جوانی، جوش حرکت اور دور تک نہیں تھے جو اُن سے متعلق میری یادوں کا حصہ تھے بلکہ اب وہ سب بھی میری طرح بڑھتی ہوئی عمر کا ایک نقشِ عبرت بن چکے تھے بڑھتی ہوئی عمر کی وجہ سے اب ہم سب اُن بوڑھوں کی شکل میں ڈھل رہے تھے جنہیں ہم کسی زمانے میں ترس کی نگاہوں کے سا تھ دیکھا کرتے تھے اور کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک دن ہم خود اُن کی مجسم تصویربن جائیں گے۔

 
اب وہ زمانہ آگیا ہے کہ ہمیں شاور کے نیچے کھڑے ہو کر نہانا ایک معرکے جیسا لگتا ہے اور دن میں نیند کی ایک پر سکون جھپکی لے سکنا اب صرف ایک آحس عمل نہیں رہا بلکہ یہ ہماری مجبوری بن چکی ہے کہ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو پھر کہیں بھی بیٹھے بیٹھے نیند کی آغوش میں چلے جایا کریں گے۔ مطلب یہ کہ اب مجھے زندگی کے ایک نئے تجربے اور موسم سے گزرنا ہوگا اچانک اور غیر متوقع دردوں اور سیٹوں کے مقابلے کی تیاری کے بغیر اور اُس ہمت، طاقت اور صلاحیت کی موزوں فراہمی کے بغیر مجھے اُن مراحل سے گزرنا ہوگا جن سے میں جوانی میں گزرنا چاہتاتھا مگر خواہش اور کوشش کے باوجود نہیں گزر سکا۔ لیکن اب میں یہ یقینا جان چکا ہوں کہ اگرمیں اپنی عمر کی آخری چوتھائی میں ہوں مگر میں اب بھی اس کی اصل طوالت سے بے خبر ہوں۔

 

بلاشبہ مجھے کئی پچھتاوے ہیں کئی باتیں جو مجھے نہیں کرنا چاہییں تھیں میں نے کیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ مجھے کئی ایسی باتوں کی خوشی بھی ہے جنہیں کرنے کا مجھے وقت اور حوصلہ مل گیا کہ اسی کا نام زندگی ہے۔


سو دوستانِ عزیز اگر تم اس وقت اپنی عمر کی آخری چوتھائی میں نہیں ہو تو میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ یہ تمہارے اندازے سے بہت پہلے آجائے گا لہٰذا جو کچھ تم اپنی زندگی میں کرنا چاہتے ہو جلدی بلکہ ابھی کرلو ان کے لیے لمبی منصوبہ بندی نہ کرو کیونکہ زندگی کی رفتار تمہارے اندازے سے بہت تیز ہے تمہارے پاس اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ تم زندگی کے سارے موسم پوری طرح سے دیکھ سکو گے۔ سو آج میں زندہ رہنا سیکھو جو کرنا ہے جلدی سے کرلوسب وہ کام کرلو جو تم اپنے پیاروں کی یادوں میں زندہ رہنے کے لیے بطور تحفٖہ چھوڑنا چاہتے ہو، یا درکھو زندگی کا اصل خزانہ زر، جوہر نہیں بلکہ اچھی صحت ہے۔

 

تم سوچتے تھے کہ دنیا میں گھومنا بہت احسن ہے مگریاد رکھو گھر واپس آنے سے زیادہ کوئی بھی خوشگوار سفر نہیں۔تمہیں یہ سوچ کر افسوس ہوتاہے کہ تمہاری یادداشت جواب دے رہی ہے اور اب تمہیں لوگوں کے نام یاد نہیں رہتے۔ اس کا غم مت کرو کیونکہ ان فراموش کردہ ناموں میں بہت سے نام ایسے بھی ہیں جو سرے سے تمہیں جانتے ہی نہیں۔ بہت سی چیزیں جن سے تمہیں بہت اُنس تھا اب تمہیں اُن کی پہلے جیسی پروا اور فکر نہیں رہی لیکن عملی طور پر تمہیں اسے جاننے یا نہ جاننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اب تم چلے ٹی وی کے سامنے لاؤنج میں صوفے پر بیٹھے بیٹھے سوجاتے ہو اور اسے نیند کا حصہ قرار دیتے ہو۔تمہیں اب وہ دن یاد کرتے ہیں جب ہر چیز تمہاری مرضی کے مطابق خود بخود ہوجاتی تھی۔ تمہاری الماریوں میں آدھے سے زیادہ کپڑے ایسے ہیں جنہیں شائد اب تم کبھی نہیں پہنو گے۔ پرانی چیزیں، گانے، دوست، فلمیں، یادیں سب موجودہ سے اچھی لگتی ہیں لیکن فرض کر و اگر یہ موجودہ عمر کی آخری چوتھائی تمہارے نصیب میں لکھی ہی نہ گئی ہوتی، تب؟

کرو جو بات کرنی ہے
اگر اُس آس پر بیٹھے کہہ دینا
بس تمہیں سننے کی خاطر گوش بر آواز ہوکر بیٹھ جائے گی
تو ایسا ہو نہیں سکتا
زمانہ ایک لوگوں سے بھرا فٹ پاتھ ہے جس پر
کسی کی ایک لمحے کے لئے رکنا نہیں ہوتا
بٹھاؤ لاکھ تم پہرے
تماشا گاہِ عالم سے گزرتی جائے گی خلقت
بِنا دیکھے بِنا ٹھہرے
کرو جو بات کرنی ہے
کرو جو بات کرنی ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *