اب اُسے ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر-امجداسلام امجد

اب اُسے ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر

اب اُسے ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر

ترقی پسند تحریک کے قیام اور فروغ میں جن لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اورعوام کے حقوق اور آزادی کے لئے آواز بلند کی اُن میں بھی مجازؔ کا نام نمایاں ہے کہ اُس کے یہاں ابتداء میں جوشؔ اور اقبالؔ کے حوالے سے بھی جو لہجہ اور جذبہ حُریت نمایاں ہوتا ہے اُس میں بھی تحریر، تقریر اور فکر کی آزادی کے ساتھ ساتھ برطانوی استعمار سے نجات کے لئے ایک مسلسل کوشش اور احتجاج کا انداز بار بار سامنے آتا ہے اور احساس کے اس اشتراک کی وجہ سے اُس زمانے کے اکثر شعراء ایک دوسرے سے متاثر نظر آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اُس کے یہاں آپ کو بیک وقت اقبال، فیض اور ساحر کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے اسی طرح قومی آزادی کے ساتھ ساتھ بھارت کے مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن یعنی پاکستان کی تحریک میں بھی وہ ایک ترانے کے ذریعے حصہ ڈالتا ہوا نظر آتا ہے یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں یا انسانوں کے بنیادی حقوق اور جذبہ آزادی کی پاسداری کے لئے اُس زمانے کے بہت سے غیر مسلم شعراء نے بھی پاکستا ن کے لئے گیت اور ترانے لکھے جبکہ جگن ناتھ آزاد کے ایک پروپاکستان گیت کو پاکستان کے قومی ترانے سے بھی تعبیر کیا گیا حالانکہ اس طرح کے گیت صرف اپنے مسلمان بھائیوں اور جذبہ آزادی کی اخلاقی مدد کے ہی نمائندہ تھے اسی ضمن میں مجازؔ کے ترانہ پاکستان کو بھی شہرت ملی حالانکہ وہ خود پاکستان سمیت کسی بھی سیاسی تحریک میں عملی طور پر شامل نہیں ہوا اورنہ ہی تقسیمِ ہند کے بعد اُس نے پاکستان کی شہریت حاصل کی اس کے لکھے ہوئے اس قومی گیت کا آخری اور دوسرا بند کچھ اس طرح سے ہے۔

سو انجیلوں پر ہے بھاری اک قرآن ہمارا
روک سکا ہے کوئی دشمن کب طوفان ہمارا
ہر ترک اپنا، ہر حُر اپنا، ہر افغان ہمارا
ہر شخص اک انسان یہاں ہے ہر انسان ہمارا
ہم سب پاکستان کے غازی پاکستان ہمارا
پاکستان ہمارا، پاکستان ہمارا، پاکستان ہمارا

اسی طرح اُس کی ایک نظم ”پہلاجشنِ آزادی“ میں قیام پاکستان کے فوراً بعد کی جس جذباتی صورتِ حال پر فیض نے ”کہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں“ اور احمد ندیم قاسمی نے

پھر بھیانک تیرگی میں آگئے
ہم گجر بجنے سے دھوکا کھا گئے

جیسے اشعار میں اپنی مایوسی اور بے چینی کا اظہار کیا مجازؔ نے اس صورتِ حال پر اپنا ردِّعمل کچھ اس انداز میں ظاہر کیا

یہ انقلاب کا مژدہ ہے انقلاب نہیں
یہ آفتاب کا پَرتُو ہے آفتاب نہیں
وہ جس کی تاب و توانائی کا جواب نہیں
ابھی وہ سعٰیِ جنوں خیز کا میاب نہیں
یہ انتہا نہیں آغازِ کارِ مرداں ہے

مجازؔ بنیادی طور پر شاعرِ رومان تھا سو اُس کے یہاں ہجرو وصال کے معاملات کا ذکر تکرار کے ساتھ کیا جانا کوئی غیر متوقع بات نہیں لیکن اس ضمن میں اس کا مخصوص دِلربا اور بہتے ہوئے دریا کی روانی جیسا لہجہ اُسے یقینا اپنے بیشتر عم عصروں سے ممتاز کرتا ہوا نظر آتا ہے۔

میرے سائے سے ڈرو تم میری قربت سے ڈرو
اپنی جراّت کی قسم اب میری جراّت سے ڈرو
تم لطافت ہو اگر میری لطافت سے ڈرو
میرے دعوؤں سے ڈرومیری محبت سے ڈرو
اب میں الطاف و عنائت کا سزا وار نہیں
میں وفادار نہیں ہاں میں وفادار نہیں
اب مرے پاس تم آئی ہو تو کیا آئی ہو

اگرچہ اس کی نظم ”مادام“ پڑھتے ہوئے دھیان ”ساحر“ کی طرف بھی جاتا ہے جس نے کہا تھا

آپ بے وجہ پریشان سی کیوں ہیں مادام
مرے احباب نے تہذیب نہ سیکھی ہوگی
میرے ماحول میں انسان نہ رہتے ہوں گے

مگر امرِ واقعہ یہ ہے کہ اقبالؔ اور فیضؔ سمیت جن دو چار اور شاعروں کا اثر اس کی شاعری پرکم یا زیادہ نظر آتا ہے وہ اُن شاعروں کی نسبت اس ماحول، فضا اور ایک نئی بنتی ہوئی ادبی روائت سے ہے جس کے پیچھے اقبال اور آگے فیض نغمہ سرا نظر آتے ہیں قیاسؔ کہتا ہے کہ اگر اُس کی ذہنی صحت متاثر نہ ہوتی اور وہ اپنی ہی قائم کردہ رومانوی روائت کو مزید آگے بڑھا سکتا تو اُس کا شمار بڑے شاعروں کی پہلی صف میں ہوتا اب جہاں تک اُس کی غزلوں کا تعلق ہے اگرچہ اُس کے ہم عصروں میں فانی ؔ بادیونی، یگانہؔ، فیضؔ، احمد ندیم قاسمیؔ اور جگر مراد آبادیؔ جیسے اپنے اپنے انداز کے باکمال شاعر موجود تھے مگر ان سب کے ہوتے ہوئے اس کا رنگِ غزل ایک ایسی انفرادیت کا حامل نظر آتا ہے جس میں اُس کی فکر اور لہجہ ایک طرح سے یک جان ہوگئے ہیں سو آخرمیں میں اس کی غزل کے جستہ جستہ اشعار کے انتخاب پر ہی اپنی بات ختم کرتاہوں کہ اگر وہ اپنی ابتدائی شاعری کے حسن اور مقبولیت کو سنبھال پاتا تو بلاشبہ اس کی فطری صلاحیت اُسے بہت آگے تک لے جاسکتی تھی یہ اوربات ہے کہ اس کے باوجود تاریخِ ادب اُردومیں وہ ایک معتبر حوالے کی شکل میں بہت سے محبوب اور کامیاب لوگوں سے بھی زیادہ زندہ اور مقبول رہے گا۔

چُھپ گئے وہ سازِ ہستی چھیڑ کر
اب تو بس آواز ہی آواز ہے
تمہی تو ہو جسے کہتی ہے ناخدا دنیا
بچا سکو تو بچالو کہ ڈوبتا ہوں میں
مٹتے ہوؤں کو دیکھ کے کیوں رو نہ دیں مجازؔ
آخر کسی کے ہم بھی مٹائے ہوئے تو ہیں
جس طرح چاہے چھیڑ دے ہم کو
تیرے ہاتھوں میں ساز ہیں ہم لوگ
یا تو کسی کو جراّتِ دیدارہی نہ ہو
یا پھر مری نگاہ سے دیکھا کرے کوئی

اے شوقِ نظارا کیا کہیئے، نظروں میں کوئی صورت ہی نہیں
اے ذوقِ تصور کیا کیجے، ہم صورتِ جاناں بھول گئے
سب کا تو مداوا کر ڈالا اپنا ہی مداوا کر نہ سکے
سب کے تو گریباں سی ڈالے اپنا ہی گریباں بھول گئے

روئیں نہ ابھی اہلِ نظر حال پر میرے
ہونا ہے ا بھی مجھ کو خراب اور زیادہ
بخشی ہیں ہم کو عشق نے وہ جراتیں مجازؔ
ڈرتے نہیں سیاستِ اہلِ جہاں سے ہم
مجازؔ کس کو میں سمجھاؤں کوئی کیا سمجھے
کہ کامیابِ محبت بھی کامیاب نہیں
بہت کچھ اور بھی ہے اس جہاں میں
یہ دنیا محض غم ہی غم نہیں ہے
زمانے سے آگے تو بڑھیئے مجازؔ
زمانے کو آگے بڑھانا بھی ہے

اور آخرمیں ایک قطعہ کہ جس میں مجازؔ کی پوری زندگی جیسے ایک تصویرمیں ڈھل گئی ہے وہ کہتاہے

وقت کی سعیءِ مسلسل کارگر ہوتی گئی
زندگی لحظہ بہ لحظہ مختصر ہوتی گئی
سانس کے پردوں میں بجتا ہی رہا سازِ حیات
موت کے قدموں کی آہٹ تیز تیز ہوتی گئی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *