ایک اجنبی سفر
رب کریم کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس بار بھی سالِ نو کے حوالے سے سینکڑوں تہنیتی پیغامات، دعائیں اور اسی حوالے سے بہت سی دلچسپ اور خیال افروز ویڈیوزبھی دیکھنے کو ملیں احباب کی ان انتہائی قیمتی اور خوبصورت دعاؤں کا اثر ہے کہ اس بے یقینی اور مایوسی کے موسم میں بھی نہ صرف دل کو حوصلہ ملا بلکہ ربِ کریم کا شکر بھی پورے زور و شور سے لہو میں لہریں لینے لگا سب سے زیادہ لطف عزیزی قمر رضا شہزاد کی زندگی اور ریل کے سفر کی مطابقتوں پر استوار ایک ایسی ویڈیو نے دیا جس پر میں دو تین برس پہلے ایک کالم بھی لکھ چکا تھا مگر پتہ نہیں کیوں اس بار اس کے کئی ایک ایسے مطالب بھی سامنے آئے جو شائد اس سے پہلے نظر انداز ہوگئے تھے لطف کی بات یہ ہے کہ زندگی کی یہ ریل ہمارے ساتھ اپنے سفر کا آغاز نہیں کرتی بلکہ یہ محفوظ انسانی تاریخ سے بھی ہزاروں لاکھوں سال قبل سے اس سفر پر رواں دواں ہے سو ہم نہ تو اس کے پہلے مسافر ہیں اور نہ ہی ہمارے اترنے کے بعد اس کے سفر اور رفتار پر کوئی فرق پڑے گا جن سیٹوں پر آج ہم بیٹھے ہیں نجانے کب سے لوگ ان پر بیٹھتے اور اپنے ہم سفروں سے متعارف ہوتے چلے آرہے ہیں اور ایک دن ہم بھی اپنا سٹیشن آنے پر ان کو نئے آنے والوں کے لئے خالی کردیں گے اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا اس کے آخری سٹیشن اور مسافر کا علم کسی معمے سے کم نہیں کہ عملی طور پر جس طرح ہر مسافر کے لئے اس کے اُترنے کا سٹیشن آخری ہے اُسی طرح ہر اسٹیشن کے لئے بھی ہر اُترنے والا مسافر اس اعتبار سے آخری ہوتا ہے کہ دونوں پھر کبھی ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکیں گے صرف اُن کی یادیں چھوڑے ہوئے ڈبوں میں چکراتی رہیں گی یہ اور بات ہے کہ بعد میں آنے والوں کو نہ وہ دکھائی دیں گی نہ سنائی۔
زندگی کی اس ٹرین کی پٹری، سگنل، سٹیشن، رستوں کے مناظر، مسافر، ہم سفر آگے گئے ہوئے، بعد میں آنے والے سب ایک تحّیر میں گم ہیں جسے صرف محسوس کیا جاسکتا ہے۔ہم آپ جو اس سارے عمل کو ایک عالم گیر حیرت کا حصہ سمجھتے ہیں اور ایک ایسی ہمہ گیر ذات پر یقین رکھتے ہیں جو اس پوری کائنات کے ساتھ ساتھ اس ریل کے سفر کی بھی موجد اور مالک ہے جو بیک وقت ماضی،حال اور مستقبل میں رواں دواں ہیں ہمارے پاس ان سب سوالوں کے علامتی نوعیت کے جواب موجود ہیں مگر وہ خلقِ خدا جو اسے محض ایک بے نام تحیرّ کی صورت میں دیکھتی اور جانتی ہے اُس کے لئے یہ ریل کا سفر یقیناً اس خوش نما پہیلی کی طرح ہے جسے اس ویڈیو میں پیش کیا گیا ہے۔
یہ ویڈیو کب بنی اس کا تو مجھے پتہ نہیں لیکن آج سے تقریباً نصف صدی قبل میں نے ایک اجنبی سفر کے عنوان سے جو نظم لکھی تھی اُسے اس ویڈیو کے تناظرمیں دوبارہ پڑھنے کا موقع ملا تو یوں لگا جیسے ان دونوں باتوں میں کوئی ایسا خفیہ تعلق ہے جس کا نہ مجھے تب پتہ تھا نہ اب ہے۔ شعری اور تخیلاتی امیجز کس طرح زندگی کے غائب اور ظاہر مظاہر کو ایک ایسی شکل دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جو خود شاعر پر بھی پوری طرح سے روشن نہیں ہوتیں اس بات کی تائید اور وضاحت کے لئے آیئے ایک بار پھر یہ نظم ایک ساتھ مل کر پڑھتے ہیں۔
ایک اجنبی سفر
یہ ریل گاڑی
جو جانے بوجھے ہوئے سفر پر رواں دواں ہے
اُسے پتہ ہے کہ اس کی منزل
اسی سفر میں کہیں نہاں ہے
یہ اپنے رستے پہ گامزن ہیں
اور اس میں بیٹھے ہوئے مسافر بھی
اپنے رستوں پہ جارہے ہیں
عجب قِصّہ ہے ایک گاڑی کے سب مسافر ہیں
پھر بھی اپنی جگہ پہ ہر ایک کارواں ہے
میں اپنی کھڑکی سے لگ کر بیٹھے، گزرتے پیڑوں کو
سبز کھیتوں میں کام کرتے ہوئے کسانوں کو جو ہڑوں کو
بھرے ہوئے ا ور خشک نالوں کو، بادلوں کو
مویشیوں اور پاس آتے ہوئے سٹیشن کے
سرخ سگنل کو دیکھتا ہوں
یہی مناظر ہر ایک کھڑکی سے لگ کے بیٹھے
ہوئے مسافر کے واسطے ہیں
اگر وہ دیکھے!
میں چاند جیتے ہوئے زمانے کا آدمی ہوں
مگر میں اُن میں نہیں ہوں جن کے
قدم خلاؤں کو چھوکے آئے
(ہم اپنی دنیا کے آدمی ہیں مگر یہ دنیا
”ہماری“ دنیا سے مختلف ہے“
عجیب قصّہ ہے
اپنے ہونے کو جانتے ہیں پر اجنبی ہیں
اسی طرح جیسے گِرد بیٹھے ہوئے مسافر
مرے سفر کے شریک بھی ہیں، پر اجنبی ہیں
یہ اجنبیّت کا زرد نقطہ
جو میری آنکھوں سے گِرد بیٹھے ہوؤں کی آنکھوں میں پھیلتا ہے
وہ دائرہ ہے
جو میرے ڈبے سے ریل گاڑی کے باقی ڈبوں
وہاں سے میرے اداس گھر تک وہاں سے شہروں
صغیر قوموں کبیر ملکوں کی بے نام وسعتوں تک چلا گیا ہے
کوئی نہیں جو مجھے بتائے
میں اجنبیت کے دائرے میں کہاں کھڑا ہوں؟
Leave a Comment