تازہ ہوا کے جھونکے
غزل کو اگر اُردو شاعری کا طُرہٗ امتیاز کہا جائے تو یہ غالباً غلط نہ ہوگا کیونکہ ولی دکنی سے لے کر دلاور علی آذر تک اور بالخصوص میرؔ و سوداکے زمانے سے اب تک شائد ہی کوئی دہائی ایسی گزری ہو جس میں کم یا زیادہ بہت اچھے غزل گو سامنے نہ آئے ہوں جبکہ گزشتہ نصف صدی میں تسلسل کے ساتھ نہ صرف ان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جبکہ اب عام طور پر ادبی مراکز سمجھے جانے والے شہروں لاہور، کراچی اور اسلام آباد سے زیادہ ان شاعروں کا تعلق ادبی اعتبار سے کم معروف اور بعض صورتوں میں بنجر علاقوں سے ہے یہ اور بات ہے کہ ان میں سے بیشتر آگے چل کر متذکرہ بالا تین ادبی مراکزمیں رہائش پذیر ہوئے اور پھر وہیں کے ہو کر رہ گئے گزشتہ دو دہائیوں میں پاکستان میں اُبھرنے والے غیر معمولی طورپر اچھے غزل گوؤں کی تعداد بھی پندرہ سے کم کیا ہوگی صرف صوبہ سندھ سے اس عرصے میں بہت سے اچھے شعرا سمیت چار ایسے ہیں جو اب ”توقعات“ کے د ائرے سے نکل کر عصرِ حاضر اور تاریخ ادب دونوں میں مستقل اور مستحکم جگہ بنا چکے ہیں میری ذاتی پسند کی ترتیب میں (جس سے اختلاف یقینانا ممکن ہے) یہ نام اجمل ستار، کاشف علی غائر، عمیر مخمی اور دلاور علی آذر کے بنتے ہیں۔
اس وقت دلاور علی آذر کا تازہ مجموعہ غزل ”سُورج مُکھی کا پُھول“ میرے سامنے ہے جس کی سب سے پسندیدہ خوبی میرے نزدیک نامانوس بحروں اور اُلٹے سیدھے ردیف، قافیوں کے بجائے شعری خیال اور مضامین کی تازگی ہے یعنی وہ Form کا سہارا لینے کے بجائے اپنے Content پر بھروسہ کرتا ہے یہ اور بات ہے کہ ا س کی بیشتر غزلیں اپنی خوش صوتی کی وجہ سے بھی قاری کو متاثر کرتی ہیں میرے نزدیک ایک اچھی غزل میں کم از کم دو اچھے اور فن وفکر کی تازگی کے حامل اشعار ضرور ہونے چاہییں دلاور علی آذر کی بیشتر غزلوں میں یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے سو اس اچھی آواز کو داد اور شاباش دینے کے ساتھ اس مجموعے سے جستہ جستہ چُنے ہوئے چند اشعار دیکھیئے یقینا آپ بھی میری بات کی تائید فرمائیں گے۔
شعر وہ لکھو جو پہلے کہیں موجود نہ ہو
خواب دیکھو تو زمانے سے الگ ہوجاؤ
اک مچھلی یہی دیکھتے آئی سرِ ساحل
کشتی کہاں جاتی ہے ساحل سے نکل کر
جانے وہ منزل کہاں جو خواب سے تعبیر کی
ڈھونڈتے آئے ہیں سارے راستے میں راستا
لفظوں کے ہیر پھیر سے بنتی نہیں ہے بات
جب تک سخن میں لذّتِ سوزِ دروں نہ ہو
ہم شام کی دہلیز پہ بیٹھے ہیں ابھی تک
اک قافلہ نکلا تھا مدینے سے ہمارا
سب اپنے اپنے طاق میں تھراّ کے رہ گئے
کچھ تو کہا ہوا نے چراغوں کے کان میں
میں ڈوبتا ہوں اُدھر وہ طلوع ہوتاہے
کہ دونوں مختلف اوقات کے ستارے ہیں
پھر اک روز اَجل ان تمام کُرتوں سے
نکال دے گی کلف کل مَن علیہا فان
پاس ہے لفظ کی حرمت کا وگرنہ آذّر
کوئی تمغہ تو نہیں ملتا غزل خوانی پر
اس تازہ ہوا کا دوسرا جھونکا ڈاکڑ زاہد منیر عامر کا شعری مجموعہ ”آتے دنوں میں گُم“ ہے زاہد منیر کو عام طور پر ایک اعلیٰ مدرس اور عصرِ حاضر کے اہم نقاد اور محقق کے طور پر جانا جاتا ہے ا ور اس بھاری بھرکم قسم کی شہرت میں ان کی شاعری کو وہ توجہ نہیں مل پائی جس کی وہ اہل اور مستحق ہے اگرچہ ان کی شاعری میں بھی اُن کا علم اور فلسفے پر اُن کی دسترس نمایاں اور غالب ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ یہ جمال اور جذبے سے خالی یا محروم ہو وہ بہت سی زبانوں کے ماہر ہیں اور اُن کی شعری اصناف اور مزاج کا اثر بھی ا نہوں نے قبول کیا ہے لیکن ان سب کے باوجود اُن کی نظموں میں جو گہرائی، وسعت اور موضوعات کا تنوع ہے وہ ہمہ وقت موجود اور برقرار رہتا ہے۔
اس کتاب کے حوالے سے ایک مختصر مضمون ”باتیں کرتی نظمیں“ کے عنوان سے اس کتاب کے آغاز میں شامل کیا گیا ہے میرے خیال میں اس مضمون کے یہ دو اقتباس زاہد منیر عامرکی نظموں کی انفرادیت اور زندگی اور اُس کے مختلف مظاہر کے سلسلے میں شاعر کے انداز، فکر و نظر کو سمجھنے میں مدد گارثابت ہوسکتے ہیں۔
”لطف کی بات یہ ہے کہ یہ نظمیں ایک ہی وقت میں خودکلامی اور مکالمے یعنی Dialogueاور Monologue کو ایک ساتھ لے کر چلنے کی ایک ایسی حیرت انگیز اور پُرلطف خصوصیت سے متصف ہیں کہ جیسے آپ کسی منظر کو ایک ساتھ دُوربین اور خوردبین سے دیکھ رہے ہوں“
”اب آیئے کچھ نمونے خود کلامی اور مکالمے کی مِلی جُلی فضا کی بھی دیکھتے ہیں زاہد منیر عامر نے یہاں بھی علامت کے حسن کو بہت کفائت سے برتا ہے اور زیادہ ترنظموں کا اختتام ایک ایسے اندازمیں کیا ہے کہ نظم استعارہ در استعارہ چلنے کے باوجود ایک نوع کی شاعرانہ Statement کا سا تاثر دیتی ہے مکمل نظم (اپنے عمومی اختصار کے باوجود) درج کرنے کی گنجائش چونکہ کم ہے اس لئے مختلف نظموں کی چند جستہ جستہ لائنوں پر اکتفا کرنا پڑے گا۔
دلاورعلی آذر اور زاہد منیر عامر نے ا پنی شاعری کے ذریعے ہوا کے جن تازہ جھونکوں کو راستہ دیا ہے ان کی تحسین واجب ہے کہ شاعر کے لئے داد عملاً کسی ملٹی وٹامن سے کم نہیں ہوتی۔
Leave a Comment