سائنس۔۔ فراڈ اور دھوکہ
یقینا یہ عنوان بہت چونکا دینے والا ا ور پریشان کن ہے اس لئے میں سب سے پہلے یہ واضح کردوں کہ اس کا کوئی تعلق میری ذاتی تحقیق یا نظریات سے نہیں ہے اور یہ عزیزی علیم احمد (وہی گلوبل سائنس والے) کی تازہ ترین کتاب کا عنوان ہے جس کا ذیلی عنوان ”تحقیق کی دنیا میں بددیانتی اور جعل سازی کی مختصر تاریخ“ ہے علیم احمد کا ذکر میں پہلے بھی کئی کالموں میں کرچکا ہوں کہ اس نوجوان نے اپنے بھائیوں اور رفیقانِ کار کے ساتھ مل کر سائنس سے متعلق ایک باقاعدہ اُردو ماہنامہ ”گلوبل سائنس“ نہ صرف شروع کیا بلکہ بیس بائیس برس تک اسے نہائت پابندی، تسلسل اور عمدہ اشاعتی معیار کے ساتھ جاری بھی رکھا ہوتا تو یہ چاہیئے تھا کہ سائنس اور اس کی ترقی سے متعلق سرکاری ادارے اور نیم سرکاری یا پرائیوٹ تنظیمیں ان نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرتیں اور معلومات کے ساتھ ساتھ مالی تعاون بھی مہیا کرتیں کہ ہمارے ہاں رسالے خرید کر پڑھنے کی روائت تو رہی ایک طرف سنجیدہ موضوعات پر پڑھنے والے بھی نایاب نہیں تو بے حد کمیاب ضرور ہیں سائنس سے دلچسپی رکھنے والے اور انگریزی سے کم واقف طالب علموں کے لئے یہ رسالہ بلاشبہ ایک نعمت اور تحفے کا درجہ رکھتا تھا اور اگر صرف سرکاری سکولوں کو ہی اسے خریدنے کا پابند کردیا جاتا تو دونوں اطراف کے مسائل بہت کم ہوسکتے تھے اب یہ رسالہ خریداروں اور اشتہاروں کی کمی کی وجہ سے دو سال سے بند پڑا ہے جبکہ ہمارے اشتہار دینے والے ادارے ہر مہینے کروڑوں روپے اس مد میں خرچ کرتے ہیں اور ا ن کے مالکان اور کارپردازان اُٹھتے بیٹھتے قوم کی کم علمی اور جہالت کا رونا بھی روتے رہتے ہیں۔
اس سے پہلے کہ یہ بحث ہمارے آج کے موضوع کو ہی خورد برد کرلے میں واپس علیم احمد کی اس کتاب کی طرف آتا ہوں جس کا مقصد یہ بتانا اور واضح کر نا ہے کہ زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح سائنس کے میدان میں بھی کم کم ہی سہی دو نمبری ہوتی ہے اور بہت بڑے بڑے فراڈ بھی کئے جاتے ہیں حالانکہ عام طور پر سائنس کو تحقیق، طریقہ کار اور نتائج کے استبساط کے حوالے سے بہت صاف اور شفاف سمجھا جاتاہے۔ علیم احمد نے اپنے پیش لفظ ”جھوٹ سچ اور سائنس اور پس و پیش لفظ“میں بڑے خوبصورت انداز میں تاریخی پس منظر سمیت دورِ جدید میں ذرائع ابلاغ کی غیر ذمہ دارانہ اطلاعات کے روّیئے کو جس طرح سے موضوعِ تنقید بنایا ہے اس کا ایک نمونہ دیکھئے۔
”پہلے کوئی ہمارے سامنے“ کیا انٹرنیٹ پر غلط معلومات دستیاب ہوں گی؟ یا کیا اُردو کے سب سے بڑے اخبار میں چھپنے والا مضمون غلط ہوسکتا ہے؟ یا یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستان کے مقبول ترین مذہبی پروگرام کا میزبان غلط کہہ رہا ہو“ جیسے انداز میں دلائل پیش کرتا تو ہم اسے سمجھانے کی پوری کرشش کرتے تھے لیکن سوشل میڈیا کے طفیل غلط اور صحیح کے پیمانے یکسر تبدیل ہو کر رہ گئے ہیں۔ آج وہ معتبر بے حس کے ”فالورز“ کی تعداد زیادہ ہے یا جس کی ہر پوسٹ/ اسٹیٹس اپ ڈیٹ پر آنکھیں بند کرکے یقین کرنے والوں کی تعداد ہزاروں اور لاکھوں میں ہے ایسے لوگوں کو ہم ”سماجی پائٹڈ پائپر“ کہتے ہیں اور ان کی ہر بات کو من و عن تسلیم کرنے والوں کو ”شاہ دولہ کے جدید چوہوں“ سے تعبیر کرتے ہیں۔
اس کے بعد وہ اُن سائنس دانوں یا سائنس سے متعلق ذمہ دار لوگوں کا ذکر کرتے ہیں جو اپنی تحقیق کی کمی کو چھپانے یا کسی مخصوص نوع کی نسلی اور علمی بددیانتی سے کام لیتے ہوئے غلط اور غیر مصدقہ معلومات کو علمی تھیوری یا مصدقہ تحقیق کے طور پر پیش کرتے ہیں پہلے علمی حوالے کی ایک مثال دیکھئے۔
”مغرب کے کچھ ”اعلی تعلیم یافتہ“ ماہرین نے یہاں تک دعویٰ کیا کہ کورونا وائرس کوئی قدرتی وباہرگز نہیں بلکہ اسے ”ووہان“ میں وائرس کی ایک تجربہ گاہ میں تیار کیا گیا تھا جہاں سے یہ Leak ہوکر پہلے ووہان شہر میں اور پھر ساری دنیا میں پھیل گیا۔آپ کو یہ جان کر شائد صدمہ ہو کہ مذکورہ سازشی نظریئے کو فروغ دینے والے صاحب کوئی گئے گزرے نہیں بلکہ فرانس سے تعلق رکھنے والے مشہور سائنسدان پروفیسر ڈاکٹر لچ موٹیئے ہیں جنہیں ایڈز وائرس (HIV)کی دریافت پر 2008 میں طب/ فعلیات کا نوبل انعام مل چکا ہے“۔
اسی طرح نسلی تعصبات کے حوالے سے سائنس کے میدان میں جن بددیانتیوں کو بہت شہرت ملی ان میں سے ایک کا تعلق اس سائنس دان سے جا ملتا ہے جو جدید سائنس کے معروف ترین ناموں میں سے ایک ہے مگر اس کی تحقیق کی نظریاتی بنیاد میں اس کا نسلی تعصب کیسے رُونما ہوا ہے علیم احمد اسے یوں الفاظ کا جامہ پہناتے ہیں۔
”بہر کیف یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ڈارون نہ صرف خود سفید فام نسل پرست تھا بلکہ اُس نے اپنی معرکتہ الآرا تصنیف ”اصلِ انواع“ (Origin of species) کے ذریعے اپنے ان نسل پرستانہ خیالات کو سائنسی بنیادوں پر بہت فروغ دیا اس کا سب سے بڑا ثبوت اس کتاب کا پورا عنوان ہے۔
”فطری انتخاب کے ذریعے انواع کی ابتدا کے بارے میں یا زندگی کی جدوجہد میں حمائت یافتہ نسلوں کا تحفظ“ اُس کے اس سچ کی مزید وضاحت پروفیسر ڈاکٹر سٹیون روز نے کچھ اس طرح سے کی ہے۔
”اور یہ کہ سفید فام نسلیں بالخصوص سفید فام یورپی نسلیں ”ارتقائی اعتبار سے سیاہ فام نسلوں کے مقابلے میں زیادہ ترقی یافتہ ہیں اور اس طرح ڈارون نے نسلی تفرقات اور نسلی درجہ بندی کو مضبوط بنایا“۔
علیم احمد نے سماجی ڈارونزم Social Darwanism اور یوجینکس کے فروغ کا رشتہ جس طرح ہٹلر کی نسلی برتری کے فلسفے اور اس سے جڑے ہوئے مشہور ہولوکاسٹ سے جوڑا ہے وہ بھی اسی مسئلہ پر بہت دلچسپ اور معلومات افزا ہے اس کتاب کی ایک اور بہت اہم خوبی اس کے آسان طرز نگار ش سے قطع نظر اس کے ابواب کی بامعنی تقسیم اور انگریزی اصطلاحات کے ساتھ اُردو متبادلات کا اہتمام بھی ہے کہ قاری دونوں کو بیک وقت موجودگی سے کسی تفہیمی مشکل کا شکار نہیں ہوتا۔ جہاں تک سائنس میں فراڈ اور دھوکہ دہی کے واقعات کا ذکر ہے ان کی تفصیل کے ساتھ ساتھ ہر ایک کی غائت پر بھی دلچسپ انداز میں تبصرہ کیا گیا ہے بالخصوص دورِ حاضر میں ایسے کچھ واقعات کو (جن سے ہم سب کسی نہ کسی حد تک واقف ہیں) بہت ہی پرلطف انداز میں بیان کیا گیا ہے مثلاً پروفیسر غوری کی آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کے جواب میں Theory of Associativity ”قادر اور قدیر“ تنازعہ لایا۔ آغا وقار پٹھان کی پانی سے چلنے والی کار کا احوال جو یہ بتاتا ہے کہ سائنس کے نام پر فراڈ اور دھوکہ ایک عا لمگیر وبا ہے۔ کتاب کے بیک ٹائٹل پر اس کتاب میں اٹھائے گئے سوالوں ان کی تاریخ، نوعیت اور اہمیت کے بارے میں جو تحریر درج کی گئی ہے اس کے ایک پیراگراف کے ساتھ میں اپنی بات کو ختم کرتا ہوں کہ اس میں دریا کو کوزے میں بند کرنے کی سی کیفیت ہے جو اس احساس کو مزید تقویت دیتی ہے کہ اردو زبان میں سائنس، جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے اس معاشرے کو علیم احمد اور ان جیسے دوسرے محنتی رضا کاروں کی حوصلہ افزائی کس قدر ضروری ہے اور یہ کہ یہ کام پورے معاشرے کی ذہنی سطح کو بلند کرنے کا ایک ایسا ذریعہ بن سکتا ہے جس کی قیمت صرف چند لمحوں کی سنجیدہ توجہ ہے اور بس۔
”ا س کتاب کے مطالعے سے آپ پر یہ انکشاف ہوگا کہ سائنس کے ”مسٹر فراڈیوں“ نے کس طرح دولت اور شہر ت کمائی ڈارون کے ارتقائی تصورات کو کس طرح سفید فام نسل پرستی کو سائنسی بنیادیں فراہم کرنے کے لئے استعمال کیا گیا اور لاکھوں انسانوں کو قتل کیا گیا اور نقلی رکازات کے ذریعے انسانی ارتقا کی”گمشدہ کڑیاں“کیسی جعلسازی سے بنائی گئیں۔ غرض اپنے تمام ذیلی عنوانات سمیت اس کتاب کا مقصد قارئین کو موجودہ زمانے میں ”سائنسی فیشن“ سے باہر نکال کر ”سنجیدہ سائنسی فکر“ کی طرف متوجہ کرنا اور اس قابل بنانا ہے کہ تو وہ سائنسی ترقی، پیش رفت کے بارے میں معقول، متوازن اور غیرجانبدارانہ رائے قائم کر سکیں یعنی نہ تو وہ سائنس سے حد درجہ مرعوب ہوکر اسے کسی عقیدے کی طرح اختیار کریں اور نہ ہی سائنس کو مکمل طور پر برا سمجھتے ہوئے اس کی مخالفت ہی کو اپنا نصب العین بنالیں“۔
Leave a Comment