کتابوں کے درمیان
آج قائداعظم لائبریری کے بورڈ آف گورنرز کی میٹنگ میں جاتے ہوئے پھر ایک دم کتاب سے متعلق یادوں نے گھیر لیا اور میں تقریباً چھ دہائیوں کے فاصلے پر موجود ایک ایسے منظر کاحصہ بن گیا جو میرے اُس وقت کے گھر واقع فلیمنگ روڈ سے موچی دروازے سے بائیں ہاتھ کی پہلی گلی نما سڑک پر واقع الفاروق لابئریری تک پھیلا ہوا تھا والد صاحب مرحوم مہم جوئی اور جاسوی ناولوں کے شوقین تھے اور میری خوشگوار ڈیوٹی اُن کی پڑھی جاچکنے و الی کتاب کو واپس کرکے کوئی اور کتاب لانا تھی جن کے مصنف عام طور پر ابنِ صفی یااکرم الہٰ آبادی اور مترجم مظہر انصاری یا تیرِتھ رام فیروز پوری ہوا کرتے تھے یہ ڈیوٹی خوشگوار اس لیئے تھی کہ مجھے نہ صرف راستے میں ان کتابوں کا کچھ حصہ پڑھنے کا موقع مل جاتا تھا بلکہ ابنِ صفی کا تو پورا ناول (جو عام طور پر 112صفحے کا ہوتا تھا) اسی چلنے پھرنے میں ختم ہوجاتا تھا اس طرح کی آنہ لائبریریاں اُس زمانے میں شہر کے ہر علاقے میں پائی جاتی تھیں آگے چل کر وطنِ عزیز کے اندر اور باہر لاکھوں کتابوں پر مشتمل درجنوں لائبریریوں کو دیکھنے کا موقع ملا ہے مگر ان آنہ لائبریریوں کا اپنا ہی مقام اور کلچر تھا اور رجسٹروں پر ہر کتاب کے آنے جانے کا وقت بہت باقاعدگی اور اہتمام سے لکھا جاتا تھا کہ ہر چوبیس گھنٹے گزرنے کے بعد کرائے میں ایک آنے کا مزید اضافہ ہوجاتا تھا۔
دوسری لائبریری جو میری زندگی میں آئی وہ مسلم ماڈل ہائی سکول کی لائبریری تھی جہاں مجھے نسیم حجازی کے اُس وقت تک کے مطبوعہ تمام ناول بار بار پڑھنے کا موقع ملا۔ تعلیمی اداروں میں یہ لابئریری کلچر ہائی سکولز سے لے کر کالجوں اور یونیورسٹیوں تک درجہ درجہ پھیلا ہوا تھا مطالعے کے اوقات میں کمی تو ٹیلی وژن کی مقبولیت کی وجہ سے ہوئی لیکن اس کے اصل بُرے دن انٹرنیٹ اور موبائل فونز کی آمد کے ساتھ آئے کہ کولڈ پرنٹ میں شائع شدہ کتابوں کی جگہ ان کے الیکٹرانک ورژن نے لے لی اور ہر سمارٹ فون کسی بھی طرح کی لابئریری کے لیئے کھل جا سِم سِم کی شکل اختیار کر گیا کتابیں خرید کر پڑھنے کی عادت زیادہ تر پچاس برس سے اوپر کے لوگوں تک محدود ہوگئی نوجوان نسل اپنی درسی کتابوں کے علاوہ ہر طرح کی کتابوں سے دُور ہوتی چلی گئی ادب، تاریخ، فلسفہ اور معلومات عامہ سے متعلق کتابیں ان موضوعات سے تعلق رکھنے والوں تک محدود ہوگئیں اور اب یہ عالم ہے کہ بائیس کروڑ کے اس ملک میں اچھے اور نمائندہ ادیبوں کی کتابیں بھی ہزاروں کے بجائے سینکڑوں کی تعداد میں چھپتی ہیں اوران میں سے بہت کم کو دوسرے ایڈیشن کا ذائقہ چکھنے کو ملتا ہے۔
قائد اعظم لابئریری لاہورکا شمار وطنِ عزیز کی چند باقی ماندہ نمائندہ اور معروف لابئریریوں میں ہوتا ہے میٹنگ کے دوران ڈائریکٹر جنرل صاحب نے ایک تصویر دکھائی جس میں تیس چالیس نوجوان قطار بنا کر کھڑے لائبریری کھلنے کا انتظار کرتے دکھائی دے رہے تھے ابھی ہم اس خوشگوار حیرت کے جادو میں ہی تھے کہ اُن کے اگلے جملے نے غبارے سے ہوا نکال دی اُن کا کہنا تھا کہ روزانہ یہ سب سول سروس کے امتحان کی تیاری کے لیئے آتے ہیں کہ یہاں انہیں اپنے مطلب کی کتابیں آسانی سے مل جاتی ہیں اور ان میں سے بیشتر مطلوبہ کتابوں کے علاوہ کسی اور کتاب کی طرف دیکھنا بھی گناہ سمجھتے ہیں اور ظاہر ہے کہ مستقبل کے بیوروکریٹ روزانہ یہاں بیٹھنے اور ملازمت میں آنے کے بعد ”کتاب“ کے کس تصور کے ساتھ زندگی گزاریں گے۔
دوسری قابلِ غور بات یہ ہے کہ سرکاری اور نیم سرکاری اور تعلیمی اداروں کی ہزاروں لابئریریاں جن کو ہر سال لاکھوں کے فنڈ ملتے ہیں وہ تحقیقی ادب کی حامل عمدہ اورمنتخب کتابیں اول تو خریدتی ہی نہیں اور اگر اس کا دعویٰ بھی کریں تو تحقیق پر پتہ چلتا ہے کہ یہ نیک کام منتخب پبلشرز کے تعاون سے پورا کیا جاتا ہے اور زیادہ تر ایسی جعلی اور دو نمبر کتابیں منتخب کی جاتی ہیں جن کے بارے میں دونوں پارٹیوں میں اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے۔
ڈائریکٹر جنرل صاحب نے بتایا کہ اُن کے کنٹرول میں صرف گیارہ لائبریریاں ہیں سو وہ اُن کے نقائص تو دُور کر سکتے ہیں مگر باقی ہزاروں چھوٹی بڑی لائبریریوں کا حساب اُن سے یا اُن کے سرپرست اداروں سے ہی لیا جاسکتا ہے امرِ واقعہ یہ ہے کہ ا گر کوئی باقاعدہ نظام مرتب کیا جاسکے تو عمدہ اور معیاری کتابوں کے پہلے ایڈیشن دس ہزار تک جا سکتے ہیں جبکہ اس وقت بیشتر کتابیں 500کی تعداد میں چھپ رہی ہیں جنہیں زیادہ تر مصنفین، جزوی یا کُلی طور پر اپنی جیب سے خرچ کرکے چھپواتے ہیں اور پھر انہیں دوستوں میں تقسیم کرتے رہتے ہیں کہ کاونٹر پر تو بیسٹ سیلر کتابیں بھی سال میں ایک ہزار سے زیادہ فروخت نہیں ہوتیں۔
قائداعظم لائبیرری Lending لائبریری نہیں یعنی آپ یہاں سے ایشو کراکے کتاب ساتھ نہیں لے جاسکتے اسے وہیں بیٹھ کر پڑھنا پڑتا ہے ایسے میں یہ بات بہت دلچسپ اور عجیب تھی کہ ا س کے باوجود وہاں سے سینکٹروں کی تعداد میں ہر سال کتابیں چوری ہوجاتی ہیں اور عمومی تحقیق کے مطابق یہ کام بھی زیادہ تر یہی سول سروس کے شوقین حضرات کرتے ہیں۔
ان تمام حقائق اور مسائل کے باوجود اس لائبریری کا دم بہت غنیمت ہے کہ نہ صرف یہ اپنی سہولیات کے اعتبار سے مثالی ہے بلکہ یہاں ہر موضوع پر نئی یا پرانی معیاری کتابیں پڑھنے والوں کو مہیا کی جاتی ہیں اس کی عمارت بھی اپنی تاریخی اہمیت کی وجہ سے بہت اہم اور شہر کی نمائندہ عمارتوں میں سے ایک ہے۔ یہاں لوگ اپنے سٹاف کے ساتھ ساتھ لائبریری سے استفادہ کرنے والوں کے لیئے بھی بہتر سے بہتر سہولتوں کی تلاش میں رہتے ہیں اور اس کی بے شمار الماریوں میں موجود بے مثال کتابوں کی خوشبو بھی آپ کو کچھ دیر کے لیئے ایک خوابوں سے بھری دنیا میں لے جاتی ہے۔
Leave a Comment