قیامِ چین کی بہترویں سالگرہ
برادرم شعیب بن عزیز خود تو اچھا بندہ ہے ہی مگر اس کی ایک اضافی خوبی یہ ہے کہ وہ آپ کو اچھے لوگوں سے ملوانے کے لئے بھی ہمیشہ سرگرم رہتا ہے میں ماہرِ چشم عزیزی ڈاکٹر علی زین العابدین سے آنکھوں کی طوطا چشمی کے علاج کے لئے دونوں آنکھوں میں انجکشن لگوانے کے بعد پوری دنیا سے یکسر کٹ کر بیٹھا تھا کہ شعیب کا فون آگیا اور اس نے بتایا کہ برادرِ ملک چین کے قیام کی بہترویں سالگرہ منانے کے لئے UCF کے دوستوں نے ایک تقریب کا اہتمام کیا ہے اور چونکہ آپ نہ صرف ایک سے زیادہ مرتبہ چین جاچکے ہیں بلکہ آپ کے ٹی وی سیریل ”وارث“ کو بھی چینی زبان میں ڈب کرکے وہاں دکھایا جاچکا ہے اس لئے آپ کی وہاں موجودگی چینی مہمانوں کے لئے بھی اہمیت اور خوشی کا باعث ہوگی اور چونکہ یہ تقریب ابھی تین دن بعد ہے اس لئے یہ آنکھوں شانکھوں والا معاملہ بھی تب تک انشاء اللہ کسی رکاوٹ کا باعث نہیں بنے گا اور یہ کہ جن صاحب ڈاکٹر ظفر الدین محمود کے گھر پر یہ تقریب ہے نہ صرف یہ کہ وہ آپ سے ملنے کے بے حد مشتاق ہیں بلکہ آپ کی آسانی کے لئے انہوں نے گھربھی تقریباً آپ کے علاقے میں ہی بنایا ہوا ہے۔ میں نے کہا بندہ خدا میرے لئے تمہاری ضمانت ہی کافی ہے میں ضرور آجاؤں گا مگر یہ تو بتاؤ کہ اس UCF سے بنتا کیا ہے اور ہمارے ان محمود ظفر الدین بھائی صاحب کا اس میزبانی سے کیا تعلق ہے؟ بولا تفصیل بعد میں بتاؤں گا البتہ محمود بھائی کے اس میزبانی کے تعلق کی وجہ ان کا تقریباً چالیس برس پر محیط عوامی جمہوریہ چین میں وہ خوشگوار قیام ہے جو نہ صرف اُن کی یادوں کا خوب صورت ترین حصہ ہے بلکہ اس کے تشکر کے اظہار کا کوئی موقع بھی وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ میں نے تقریب کی نوعیت کے اعتبار سے اپنے سفرنامہ چین ”ریشم ریشم“ کے میزبان کے لئے بطور تحفہ ایک کاپی تو ساتھ رکھ لی مگر اُن کے گھر کے گیٹ میں داخلے تک مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ وہاں کیا ہوگا اور یہ UCF کس چیز کا مخفف ہے۔ ایک بڑے سے کمرے میں شعیب بن عزیز سمیت پندرہ بیس خواتین و حضرات کو وڈ کی حفاظتی تدابیر کی مکمل اور باقاعدہ پابندی کرتے ہوئے ماسک پہنے موجود تھے جن میں سے چینی احباب تو بوجوہ اس کے باوجود بھی پہچانے جاسکتے تھے مگر شعیب کے علاوہ دیگر تین چار پاکستانیوں میں میزبان کو پہچاننا اپنی جگہ پر ایک مرحلہ تھا لیکن اس سس پنس کا کل دورانیہ ایک منٹ سے زیادہ کا نہیں تھا کہ میزبان یعنی ڈاکٹر محمود ظفر الدین نے فوراً ہی مہمانوں سے میرا اس طرح سے تعارف کرانا شروع کردیا کہ اُن کے اپنے تعارف کی خوبصورت گرہیں بھی ایک ایک کرکے کُھلتی چلی گئیں دس کے قریب چینی مہمانوں میں سے صرف تین دوست انگریزی میں بات کرسکتے تھے سو باقیوں سے جتنی گفتگو اور دعا سلام ہوئی اُس کا تعلق آنکھوں سے 80%اور 20% مسکراہٹوں سے رہا کہ انہوں نے چائے کے دوران بھی ماسک کچھ اس طرح سے اتارے یا اِدھر اُدھر کئے کہ بقول غالبؔ غنچہ ناشگفتہ کو دُور سے ہی دیکھا یا دکھایا گیا۔
حکومتی سطح پر تو بلاشبہ دونوں برادر ملکوں میں دوستی کے رشتے گہرے بھی اور مثالی اور مستقل بھی ہیں لیکن دیکھا گیا ہے کہ عوامی سطح پر اس کے اظہار کے مواقع تقریباً نہ ہونے کے برابرہیں اس کی ایک بنیادی وجہ یقینا زبان ہی ہے کہ دونوں طرف سے اِکا دُکا لوگ ہی ایک دوسرے کی زبان سمجھ ا ور بول سکتے ہیں گزشتہ دو تین دہائیوں سے چین میں انگریزی بولنے اور سیکھنے کا رواج بوجوہ ایک دم بہت زیادہ بڑھ گیا ہے جبکہ ماؤ اور چواین لائی کے زمانے تک اس کی شدبُد بھی فارن سروس اور یونیورسٹیوں کے کچھ شعبوں سے قطع نظر خال خال لوگوں کو ہی تھی لیکن اُس وقت بھی وہ لوگ ہماری طرح نہ تو اس سے مرعوب تھے اور نہ اسے نہ جاننے کی وجہ سے کسی بھی قسم کے کمپلکس کے شکار تھے امریکہ کے صدر رچرڈ نکسن کے اولین دورہ چین کا وہ واقعہ اِ س کی ایک زندہ اور روشن مثال ہے جب اس نے چینی وزیراعظم چو این لائی سے بغیر کسی ترجمان کے براہ راست بات کرنے کی یہ کہہ کر درخواست کی تھی کہ یہ بات اس کے علم میں ہے کہ چو این لائی بہت اچھی انگریزی جانتا ہے اور اس کے جواب میں چو این لائی نے مسکرا کر انکار میں سر ہلاتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنی ہی زبان میں بات کرے گا کیونکہ چین گونگا نہیں ہے۔
میرے استفسار پر ڈاکٹر محمود نے بتایا کہ UCF اصل میں Understanding China Forum کا مختصر نام ہے یہ تنظیم چند ماہ پیشتر ہی اس طرز سے قائم کی گئی ہے کہ اس کی معرفت چین اور پاکستان کے باہمی تعلقات کی افہام و تفہیم میں مزید وسعت اور گہرائی پید اکی جاسکے۔ ا س کے چیئرمین خورشید محمود قصوری اور صدرنشین ہمارے میزبان ڈاکٹر محمود ظفر الدین ہیں جو 1976ء میں میڈیکل کی تعلیم کے لئے چین گئے تھے تعلیم تو مکمل ہوگئی مگر ساری زندگی انہیں میڈیکل پریکٹس کا موقع نہیں مل سکا کہ پہلے اُن پر بی سی سی آئی کے حسن عابدی صاحب کی نظر پڑی اور وہ وہیں چین میں بینکر بن گئے اور پھر پاکستان کے مختلف سربراہانِ مملکت نے چینی زبان پر اُن کی گرفت اور عمومی لیاقت کو دیکھتے ہوئے اُن کی خدمات سفارت خانہ پاکستان کے لئے حاصل کرلیں کچھ برس وہ شنگھائی قونصلیٹ میں بطور قونصل جنرل متعین رہے پھر انہیں پاکستان میں سی پیک اور پاک چائنا فورم سے منسلک کردیا گیا اور یوں 2017ء میں سرکاری ملازمت چھوڑنے تک وہ تقریبا 35 برس کسی نہ کسی طرح چین سے ہی متعلق رہے۔
یہ فورم اور اس کے تحت منعقد کی جانے والی یہ تقریب تمام پاکستانیوں کی طرف سے اس محبت کی آئنہ دار تھی جو وہ چین کے لئیے اپنے دل میں رکھتے ہیں اس موقع پر چینی دوستوں کی گفتگو سے یہی اندازہ ہُوا کہ وہ عوام کی سطح پر اس رابطے کے قیام سے نہ صرف بہت خوش ہیں بلکہ وہ خود بھی چین میں اس طرح کے عوامی فورم بنانے کے لئے بھرپور کوشش کریں گے اتفاق سے چند دن قبل ہی مجھے چین میں متعین ہمارے نئے سفیر معین صاحب کا (جن سے اُن کی پیرس تعیناتی کے دوران بھی دوبار ملاقاتوں کا بہت خوشگوار تاثر قائم تھا) کا فون آیا کہ وہ اُردو اور چینی زبانوں کے منتخب ادب کے باہمی تراجم کے سلسلے میں بھی یہاں کے متعلقہ اداروں سے مل کر ایک باقاعدہ منصوبہ بنا رہے ہیں میں نے انہیں بتایا کہ لیو شاؤ چی نے جو بعد میں پاکستان میں چین کے سفیر بھی رہے 1986ء میں میرے ڈرامہ سیریل وارث کا چینی زبان میں ترجمہ کیا تھا جو یقینا وہاں موجود ہوگا اور چونکہ وہ تیار شکل میں ہے اس لئے اس سے اس کام کا آغا ز بھی کیا جاسکتا ہے وہ اس اطلاع سے بہت خوش ہوئے ا ور میری معلومات کے مطابق اب دونوں زبانوں کے ادب پاروں کے انتخاب کا عمل بھی زور و شور سے شروع ہوچکا ہے۔
سیاسی بیانات، لین دین، تعمیراتی منصوبے اورعالمی برادری میں کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونے کی اہمیت سے یقینا کسی کو انکار نہیں ہوسکتا لیکن ایک دوسرے کے معاشروں کی خوب صورتیوں اور اشتراکات کو سمجھنے کے لئے زبان و ادب اور فنونِ لطیفہ کی ضرورت اور اہمیت اپنی جگہ ہے اس کا بھر پور احساس بہت پہلے کیا جانا چاہیئے تھا لیکن ہمیں تاخیر کی روداد میں سر کھپانے کے بجائے آگے کی طرف دیکھنا چاہیئے یو سی ایف والوں نے اپنے تعارفی بروشر میں رسول پاکؐ کی دو احادیث کے بعد دو چینی مفکروں لاؤ تسو اور کنفیوشش کے بھی اقوال درج کئے ہیں جنہیں بلاشبہ علم و دانش کے مرقعے کہا جاسکتاہے تو آیئے آخر میں ان کے معانی کی گہرائی تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
رسول کریمؐ نے فرمایا۔
”علم حاصل کرو چاہے اس کے لئے تمہیں چین کے دور دراز کا سفر ہی کیوں نہ کرنا پڑے“
”علم اور عاجزی میں خیر ہی خیر ہے“
لاؤتسو جسے انگریزی میں Lau Tsu لکھتے ہیں کہتا ہے۔
”سفر چاہے ایک ہزار میل کا ہی کیوں نہ ہو شروع وہ ایک ہی قدم سے ہوتا ہے“
مشہور چینی فلسفی کنفیوشش کا کہنا ہے کہ
”ایسا کام یا پیشہ چنوجو تمہیں دل سے پسند ہو اور اگر ایسا ہوجائے تو تمہیں ساری زندگی کبھی کام کا بوجھ محسوس نہیں ہوگا“
Leave a Comment