موازنہ
جمعرات 3نومبر2022کو جس وقت عمران خان کے قافلے پر حملہ ہو ا میں عزیزی ڈاکٹر احمد بلال اور شوکت فہمی کے ساتھ بلال لاشاری کی ”مولا جٹ“ کا وہ رُوپ دیکھ رہا تھا جو اُنہوں نے شائد کئی برس میں مکمل کیا ہے سوہمیں اس واقعے کی خبر فلم کے اختتام پر ہوئی دوڑتے بھاگتے اور ٹریفک کے رش سے بچتے بچاتے گھر پہنچے اور رات گیارہ بجے تک ا س واقعے کی تفصیلات مختلف چینلز پر دیکھتے اور سنتے رہے اب ہوایہ کہ پتہ نہیں اس فلم کے مناظر اور پاکستانی سیاست کی کہانی کب اور کیسے ذہن میں ساتھ ساتھ چلنے لگے لیکن اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے میں ضروری سمجھتاہوں کہ اس فلم کے بارے میں اپنا تاثر رقم کردوں کہ جہاں تک فلم کی تکنیک، کیمروں کے استعمال، پس پردہ موسیقی، واقعات کی رفتار اور fantasyکو پکچرائز کرنے کی بات ہے یہ ایک بہت اچھی اور کامیاب فلم ہے اور اسے سینما ٹو گرافی کے ا عتبار سے کسی بھی بین الاقوامی مقابلے میں اعتما د سے پیش کیا جاسکتا ہے لیکن جہاں تک اس کی کہانی، کرداروں، زمانے، ماحول اور حقیقت پسندی کا تعلق ہے اس فلم میں ان میں سے کسی ایک بات کا خیال بھی نہیں رکھا گیا برادرم ناصر ادیب نے چالیس برس قبل پہلی ”مولا جٹ“ میں جس طرح پنجابی فلموں کی ایک انوکھی پیروڈی کی تھی اور اس کے لیے بہت مختلف انداز کے مکالمے لکھے یہاں بھی انہوں نے یہی کیا ہے فرق بس یہ ہے کہ یہ فلم ایک پیروڈی کی مزید پیروڈی ہے جس میں بے معنی تشدّد اور لایعنیت کی ذمہ داری لینے کو کوئی بھی تیار نہیں۔ جہاں تک ہماری سیاست اور اس فلم کے موازے کا تعلق ہے تو میرے خیال میں سب سے پہلی مماثلت ایک بے معنی بلند آہنگی ہے کہ کوئی بھی کردار عام انسانوں کی طرح بولتا نظر نہیں آتا اور نہ ہی کسی کی باڈی لینگوئج اُس صورتِ حال کے مطابق ہوتی ہے جس میں وہ موجود ہو۔
اسی طرح زمان و مکان، عمل اور ردِّعمل اور واقعیت پسندی سے نہ صرف کام نہیں لیا گیا بلکہ جگہ جگہ جیسے جان بوجھ کر ان کی خلاف ورزی کی گئی ہے ہر کردار جب جو جی چاہے ایک نئی شکل بنا لیتا ہے اور جس طرح سے ہمارے سیاستدانوں کی اکثریت نے اپنے وطن سے محبت میں نالائقی کا مظاہرہ کیا ہے اسی طرح اس فلم کے کردار پنجابی اور پنجاب میں ہونے کے باوجود کسی اور دنیا کے دکھائی دیتے ہیں جہاں ابھی قانون نام کی کسی چیز کا تعارف ہی نہیں ہوا سکرین پر اس قدر قتل و غارت دکھانے کے باوجود دُور دُور تک کہیں پولیس یا قانون نافذ کرنے والا کوئی ادارہ نظر نہیں آتا۔ حمزہ علی عباسی جس نے نوری نت کا کردار کیا ہے کیوں اور کب سے جیل میں ہے اور وہ جیل میں سرعام بندوں کو مارنے کے باوجود کس طرح مصنف و ہدایت کار کی اجازت سے سپرٹنڈنٹ جیل کا مضحکہ اُڑا کر آزاد ہوجاتا ہے اس کا کہیں ذکر تک نہیں اب دیکھا جائے تو وطنِ عزیز کی سیاسی زندگی میں بھی کئی لوگ اسی طرح سے ملکی قانون سے بالا تر رہے ہیں کہنے کو اس فلم کے سارے کردار اپنی ہیئت اور سائیکی کے اعتبار سے پنجابی فلموں اور Wild Wastکی فلموں کے کرداروں کی طرح Larger than lifeہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مبالغے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔
جس طرح فلم میں Intervalکے بعدکہیں کہیں کچھ سین اور شاٹش دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ شائد یہ اسی دنیا کی کہانی ہے اسی طرح ہماری قومی تاریخ میں بھی اس نوع کے Illusionمل جاتے ہیں جیسے حسین شہید سہروردی، ذوالفقار علی بھٹو، عمران خان، ڈاکٹر عبدالسلام، عبدلستار ایدھی، جہانگیر خان، نور جہاں، نصرت فتح علی خان، مہدی حسن، صادقین، ڈاکٹر عبدالقدیر، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، جسٹس کارنیلئس، جسٹس صمدانی، جسٹس کیانی، عزیز بھٹی، ڈاکٹر حمید اللہ، ملک معراج خالد، وسیم اکرم، محترمہ فاطمہ جناح، مولانا مودودی، عبدالرحمن چغتائی، سعادت حسن منٹو اور حکیم محمد سعید جیسے کچھ اور لوگ کہ جن کو دیکھ کر زندگی کی معنویت پر یقین سا آنے لگتا ہے لیکن جب ہم لیاقت علی خان، بھٹو، بے نظر بھٹو کی موت اور عمران خان پر کئے گئے حملے کو دیکھتے اور مارشل لاؤں سمیت سیاسی حکومتوں کی ناکامیوں کو دیکھتے ہیں اور یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ان کو بھی پوچھنے اور روکنے والا کوئی نہیں تو ایک بار پھر سے ہر چیز دھندلانے لگتی ہے۔
اس ساری صورتِ حال پر بے جہتی کا مزید بوجھ ہمارے حوصلوں اور توجہ کو بھی برابر منتشر کرتا رہتاہے فرق صرف یہ ہے کہ سیاسی تاریخ میں قانون کا عمل دخل کہیں کہیں نظر آنے کی کوشش کرتا ہے مگر جب معاشرہ چل ہی کسی قانون کے بغیر اور مولا جٹوں اور نوری نتوں کی بے معنی، بلا جواز اور بے تکی خونریزی کے بل پر ہو اور اخلاقی اور معاشرتی سطح پر قلم کی ہیروئین بار بار بھرے مجمعے میں اعلان کرے کہ وہ مولا جٹ کے بچے کی ماں بننا چاہتی ہے اور پھر تنہائی میں اپنے منہ سے کہے کہ اس وقت اس کی مولا جٹ سے ملاقات کا مقصد بھی یہی ہے اور کہانی کی ویمپ دارو بھری چوپال میں نت قبیلے کی چوہدراہٹ کے دعویدار کا سر اس صفائی سے اُڑا کر لوگوں کو دکھائے کہ سعودی عرب کے تربیت یا فتہ جلاد بھی اس کا مقابلہ نہ کرسکیں اور ہر جگہ حقیقت کا دعویٰ تو ہو مگر حقیقت نہ ہو البتہ اتنا ضرور ہے کہ سیاسی اداکاروں کی نسبت ہیرو اور ولن دونوں نے اپنا اپنا دیا ہوا کام بہت محنت سے کیا ہے۔ آخر میں پھر عمران خان اور اس کے قافلے پر حملے کی طرف واپس آتے ہوئے یہی کہنا پڑتا ہے کہ جو جو بھی لوگ اس میں جس بھی طرف سے ملّوث ہیں ایک بار رک کر یہ ضرور سوچیں کہ وہ کون ہیں، کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں جہاں فواد چوہدری کے بدلے اور جوابی جملے والی باتیں انتہائی غلط اور گمراہ کن ہیں وہاں حکومتی نمائندوں کی گفتگو بھی زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے اگر واقعی عمران خان نئے آرمی چیف کے تقرر میں کوئی رول ادا کرنا چاہتا ہے تو وزیراعظم صاحب کو اپنا آئینی اختیار کام میں لاتے ہوئے فوری طور پر اس مسئلے کو نمٹا دینے یعنی نئے چیف کا اعلان کر دینے میں کیا ممانعت ہے اور اگر جلد انتخابات کے تقاضے کے جواب میں آپ اکتوبر سے ایک دو ماہ قبل کی تاریخ دے کرایک درمیانی راستہ نکال سکتے ہیں تو کیوں ایسا نہیں کرتے۔
ہم سب مل کر یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ اس قوم کو مولا جٹ اور نوری نت کی نہیں بلکہ ایسے ذمہ دار اور اپنے معاشرے سے کمٹڈ با صلاحیت انسانوں کی ضرورت ہے جن کو دیکھ کر پتہ چل سکے کہ ہم کون ہیں، کہاں رہتے ہیں کیا چاہتے ہیں اور ہماری پہچان کیا ہے؟
Leave a Comment